کورونا مریضوں کے گھر پر پوسٹر لگانا منا سب نہیں!
سپریم کورٹ نے کہاکورونا مریضوں کے گھروں کے باہر پوسٹر چپکانے سے غلط نظریہ بن جاتا ہے ۔ دوسرے لوگ ان کے ساتھ اچھوت جیسا رویہ اپنا نے لگتے ہیں عدالت کا یہ تبصرہ اس عرضی پر سماعت کے دوران آیا جس میں پوسٹر نہیں لگانے کو لیکر گائیڈ لائنس دیکھنے کی مانگ کی گئی تھی اب معاملے کی اگلی سماعت 3دسمبر طے کی گئی تھی اداریہ لکھے جانے تک عدالت نے کیا فیصلہ دیا ہے اس کی رپورٹ نہیں آسکی تھی جسٹس اشوک بھوشن جسٹس آر شبھاش ریڈی اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے کہا کہ جب ایک بار یہ پوسٹر کسی کے گھر پر لگ جاتا ہے تو بنیاد ی سطح پر کچھ اور ہی حقیقت دکھائی پڑتی ہے مرکزی سرکارکی طرف سے پیش وکیل تشا ر مہتا نے کورٹ کو بتایا کہ یہ قاعدہ مرکزی سرکار نے نہیں بنایا اور اس کی کورونا مریض کو داغ دار کرنے کی کوئی منشا نہیں ہے بلکہ پوسٹر لگانے کا مقصد لوگوں کی حفاظت کرنا ہے اگر اس سے ان کے وقار کو ٹھینس پہونچتی ہے تو سرکار اس کے حق میں نہیں ہے بنچ نے عرضی گزار کو مرکز کے جواب کا محاسبہ کرنے کے بعد اپنی رائے رکھنے کو کہا عرضی گزار کے وکیل کشل کالرا نے عرضی میں کہا ہے کہ ایسے پوسٹر لگانا پرائیویسی کے علاوہ باوقار زندگی گزار نے کے حق کی خلاف ورزی ہے عرضی میں درخواست کی گئی ہے کہ سبھی ریاست اور مرکزی حکمراں ریاستوں کو پوسٹر لگانے کے فیصلے کومنسوخ کرنے کی ہدایت دی جائے ۔ ساتھ ہی ریجیڈینٹ ویل فیئر اشوشیشن نوکے ذریعے کووڈ 19سے متاثر مریضو ں کے نام واٹسپ گروپ پر ڈالنے پر بھی پابندی لگائی جائے عرضی گزار کہنا ہے گھروں کے باہر پوسٹر لگانے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اس طرف مرکوز ہوجاتی ہے اور لوگ اس گھر کے مکینوں سے بچنے لگتے ہیں ۔ عدالت نے مرکزی سرکار سے پوچھا تھا کہ کیوں نہ ملک گیر گائیڈ لائنس لاکر مریضو ں کے گھروں کے باہر پوسٹر چپکانے کے رواز کو ختم کردیا جانا چاہئے بنچ نے اس دن عرضی کے طئیں سرکاری وکیل مہیا کرانے کو کہا تھا جس سے مرکزی سرکار کا اس معاملے میں موقف رکھ سکیں۔ہم سپریم کورٹ کی رائے سے متفق ہیں پوسٹر لگانے سے نہ صرف دہشت کا ماحول پیدا ہوتا ہے بلکہ مریض کو اچھوت ماننے کے ایک ٹرینڈ پیدا ہو جاتا ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں