شادی صرف تبدیلی مذہب کے لئے قبول نہیں !

ان دنوں الہٰ آباد ہائی کورٹ سے کئی فیصلہ آرہے ہیں پہلے گﺅ ہتھیا قانو ن کے بیجا استعمال پر آیا اب تبدیلی مذہب معاملے میں اسی کورٹ نے کہا صرف شادی کے لئے مذہب تبدیل کیا گیا تبدیلی مذہب قبول نہیں ہے ۔ عدالت نے شادی شدہ میاں بیوی کی پولس حفاظت کی مانگ سے متعلق عرضی کو خارج کردیا اس معاملے میں مسلم لڑکی نے مذہب بدل کر ہندو لڑکے سے شادی کی تھی ۔ جسٹس مہیش چندر ترپاٹھی کے سامنے پیش عرضی میں پرینکا عرف سبرین اور ان کے شوہر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے مگر لڑکی کے والد اس سے خوش نہیں ہیں میاں بیوی نے پولس سیکورٹی اور ان کے ازدواجی زندگی میں دخل نہ دینے کی درخواست دی تھی جج نے آئین کی دفع 226کے تحت معاملے کے مداخلت سے انکار کر دیا ۔ جسٹس ترپاٹھی نے یہ فیصلہ دیتے ہوئے کہ 2014کے نو جہاں بیگم معاملے نے کورٹ نے سوال اٹھایا تھا کیا صرف شادی کے لئے تبدیل کیا گیا مذہب تسلیم ہے ۔ تب مذہب بدلنے والوں کو اگلے مذہب کی نا تو کوئی جانکا ری ہے اور نہ ہی اس میں عقیدت اور یقین ۔ سماعت کے دوران ترپاٹھی نے کہا اس معاملے کو پڑھنے صاف ہے کہ لڑکی پیدائش سے مسلم ہے اور اس نے 29جون 2020کو ہندو مذہب اختیار کیا اور 31جولائی کو ہندو رسم و رواج سے شادی کی اس صاف ہے مذہب شادی کے مقصد سے بدلہ گیا ۔ عدالت نے اس تبدیلی مذہب کو نہ منظور کرتے ہوئے عرضی گزار کو مجسٹریٹ کے سامنے اپنی دلیل دینے کی طول دے دی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!