گﺅ ہتھیا انسداد قانون کا بیجا استعمال !

الہٰ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ یوپی میں گﺅ ہتھیا تحفظ قانون کا بے قصور لوگوں کے خلاف بیجا استعمال ہورہا ہے۔ جب کبھی کوئی ماس برآمد ہوتا ہے بغیر جانچ کے اس کو گﺅ ماس کہہ دیا جاتا ہے اور بے قصور شخص کو اس جرم کے لئے جیل بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ جوشاید اس نے نہیں کیا ہے ۔جسٹس سدھار ت نے یہ رائے زنی گﺅ ہتھیا قانون کے تحت جیل میں بند رحیم عرف رحیم الدین ضمانت عرضی پر سماعت کرتے ہوئی کی ہے عدالت کا کہنا تھا جب کوئی گﺅ ونس برآمد کیا جاتا ہے تو ریکوری میمو تیار نہیں کیا جاتا ہے کسی کو برآمدگی کو گﺅ ونس کو کہاں لے جایا جائے گا عدالت نے کہا گﺅ تحفظ ہوم اور گﺅ شالہ بوڑھے اور دودھ نا دینے والے جانوروں کو نہیں لیتے ان کے مالک بھی ان کو چارہ کھلاپانے میں حیتثیت نہیں رکھتے وہ پولس اور مقامی لوگوں کے ذریعے پکڑے جانے کے ڈر سے ان کو کسی دوسری ریاست میں لے نہیں جاسکتے عدالتے نے جانوروں کی دیکھ بھال پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں گﺅ ہتھیا ایکٹ کو ایمانداری سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے زیادہ تر معاملوں میں برآمد ماس کو فورنسک جانچ کے لئے نہیں بھیجا جاتا اور ملزم کو اس جرم میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جس میں 7سال تک کی سزا ہے اس کے ساتھ ہی ایسے معاملوں کی سماعت فرسٹ کلاس کے مجسٹریٹ کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ سرکار وں کو چاہئے کسی قصور وار ٹھہرانے سے پہلے معاملے کی تہ تک جانا چاہئے ثابت ہونے پر اس کو سزا دی جائے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!