نکیتا قتل کیس میںریکارڈ ٹائم میں فائل ہوئی چارشیٹ!
نکیتا قتل کیس کی چارشیٹ ایس آئی ٹی نے عدالت میں داخل کردی ہے اس کیس نے پورے دیش کو ہلا کر رکھ دیا تھا واضح ہو کہ پچھلے ماہ 26اکتوبر کو اپنی سہیلی سے لوٹ رہی طالبہ نکیتا کو اگروال کالج کے گیٹ کے باہر بنیادی ملزم توصیف نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اس واردات کو انجام دینے میں اس کا ساتھی رہا ریحان بھی شامل تھا ۔دونوں ملزم واردات کے بعد موقع سے فرار ہو گئے ۔واردات کی اطلاع ملتے ہی شہر ولبھ گڑھ میں قتل اور اسلحہ ایکٹ کے تحت کیس درج کر دیا ۔محض پانچ گھنٹے میں کرائم برانچ نے بنیاد ی ملزم توصیف کو نوح سے گرفتا ر کیا اور اس کا ساتھی بھی وہیں سے پکڑا گیا ۔ایس آئی ٹی نے جمع کو کورٹ میں داخل چارشیٹ میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ بنیادی ملزم نے قتل واردات سے دو دن پہلے اگروال کالج کے آس پاس ٹوہ لی تھی کہ نکیتا کب کالج سے باہر نکلتی ہے اور کتنے بجے کون اسے لینے آتا ہے ان سب باتوں کو توصیف سے پوچھ تاچھ کے بعد چارشیٹ میں فائل کیا ۔یہ ہی نہیں وارادات کے بعد طالبہ کو نزعی حالت میں اسپتال لے جاتے ہوئے اس کے رشتہ داروں ماں وجے بتی بھائی نویم اور دیگر نے واردات کی تفصیل بتائی تھی پولیس نے ان کے بیان کو بھی چارشیٹ میں شامل کیا ہے اور ایس آئی ٹی نے ذریعے دن رات کی گئی محنت اور اعلیٰ افسران کی رہنمائی میں ایک ریکارڈ وقت میں محض 11دن میں چارشیٹ داخل کر دی گئی ۔ڈیجیٹل و فورنسک سائنس شہادتیں اور چشمدید گواہ اور دیگر اہم ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوائی جائے گی قتل کانڈ میں رستہ داروں کے علاوہ پولیس کرمچاری فوٹو گرافی اور فورنسک ٹیم سی سی ٹی وی فوٹیز واردات میں استعمال کی گئیں کار اور اس کے مالک کے بیان اور نکیتا اور ملزمان کے کپڑوں میں موبائل اور نکیتا کے جسم سے نکلی گولی برآمد طمنچہ اور توصیف کے ہاتھ سے ملے گن پاو¿ڈر کی رپورٹ عدالت میں اہم ثبوت اور گواہ ہوں گے ۔پولیس ذرائع کی مانیں تو پہلی چارشیٹ میں ایس آئی ٹی نے لو جہاد اینگل کو شامل نہیں کیا ۔کیوں کہ ابھی تک توصیف اور نکیتا کے موبائل فون کی جانچ رپورٹ نہیں آپائی پولیس یہ پتہ کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ سال 2018کے بعد توصیف نے کب کب نکیتا سے رابطہ قائم کیا اور دونوں کے بیچ کتنے وقت تک بات چیت ہوئی ؟ لیکن کہا جارہا ہے اگر جانچ میں لو جہاد کی کوئی بات سامنے آتی ہے تو اسے ضمنی چارشیٹ میں شامل کر کورٹ میں پیش کیا جائے گا ہم فریدآباد پولیس کو اس بات کی بدھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے صرف اس کیس کو کچھ گھنٹوں میں حل کردیا بلکہ ریکارڈ ٹائم میں ایف آئی آر بھی درج کرا دی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں