کانگریسی نیتاﺅں کو پارٹی سے زیادہ اپنے مستقبل کی فکر

کانگریس کی ورکنگ کمیٹی سے صاف ہو گیا ہے کہ پارٹی اوپر سے جتنی بھی کمزور نظر آرہی ہے وہ اس سے بھی زیادہ بری حالت میں پہنچ گئی ہے دراصل پارٹی کو جلد بڑی سرجری کی ضرورت ہے کانگریس کا نیا صدر کون ہوگا یہ وقت طے کرئے گا لیکن پارٹی کے اندر مستقل صدر کی مانگ کو لے کر تقریبا دو گروپ بن گئے ہیں پارٹی کے سینئر لیڈر اور نوجوان لیڈر آمنے سامنے آگئے ہیں ایک بڑا طبقہ سینئر لیڈروں کی اس تشویش کو کہ کانگریس لیڈر شپ پر دباﺅ اور اپنے مستقبل کی فکر کے طور پر دیکھ رہا ہے تاکہ تنظیم میں اس کا دبدبہ بنا رہے ۔پارٹی کے نگراں صدر سونیا گاندھی کو لکھے گئے خط پر دستخط کرنے والے زیادہ تر نیتاﺅں کے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے ساتھ زیادہ اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں کیونکہ راہل نے پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد نوجوان لیڈ ر شپ پر زیادہ بھروسہ جتایا ہے ۔راجستھان میں سیاسی بحران میں غلام نبی آزاد اور مکل واسنک کی جگہ اجے ماکن اوررندیپ سورجیوالا پر اعتماد جتایا پارٹی کے نتیاﺅں کے خط کو راہل گاندھی کے خلاف عدم اعتماد کے طورپر بھی دیکھا جا رہا ہے پارٹی نے پچھلے ایک ماہ میں کئی مرتبہ باقاعدہ طور پر دہرایا ہے کہ پوری پارٹی راہل گاندھی کو پارٹی صدر کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے ۔یہ خط پارٹی میں اتحاد پر سوال کھڑے کرتا ہے دراصل خط پر دستخط کرنے والے نیتاﺅں کو پارٹی مفاد سے زیادہ اپنے مستقبل کی فکر ہے ۔اس لئے کانگریس کو چھ مہینے اور مل گئے یہ طے کرنے کے لئے کہ پارٹی کا نیا صدر کون ہو سکتا ہے؟اگر یہ امید کی جا رہی ہو کہ اس کے بعد کانگریس کو کوئی ایسا راستہ مل جائے گا جس کے ذریعہ وہ 2024میں مرکز میں اقتدار تک پہنچ پائے گی تو ایسی امید رکھنا بے معنی ہوگا ۔کانگریس بحران کے دور سے گزر رہی ہے اس کے لئے اس کے اندرونی اسباب جتنے ذمہ دار ہیں اس سے زیادہ باہری وجوہات بھی ذمہ دار مانی جا سکتی ہیں ۔سال 2014کے بعد بی جے پی سیاست میں جو تبدیلی آئی ہے اور نریندر مودی اتنے اونچے قد کے ساتھ اپنے آپ کو مضبوط بنا پائے ہیں اس کے بعد تمام اپوزیشن بونی لگنے لگی ہے بہت سے لوگوں کا خیال ہو سکتا ہے کہ یہ ایک نظریہ ہے لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ مقابلہ کرشمائی لیڈر شپ سے ہو تو پھر ہار پر بہت تعجب نہیں ہوتا کانگریس کے اندر جو کچھ نیتاﺅں کی ناراضگی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پارٹی مسلسل چناﺅ ہار رہی ہے لیکن اس کی وجہ تلاش نہیں کی جا سکی جو دیوار پر لکھی عبارت جیسی دکھائی دے رہی ہے سوال اُٹھتا رہا ہے ہے کہ کیا کانگریس کو گاندھی خاندان سے الگ رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے ،؟بے شک دیکھئے لیکن اس پریوار سے ہٹ کر جو لوگ ہیں بھی ان کی قومی سطح پر کوئی قبولیت نہیں ہے ۔کانگریس کی سپریم کمیٹی سی ڈبلیو سی میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور راجیہ سبھا کی سیاست کرتے ہیں دوسرے ریاست کے لیڈر شپ میں قبو ل نہیں کرئے گی یہ صرف راہل گاندھی ہی ہیں جو صرف مودی کے خلاف لڑ رہے ہیں شاید اگر ان کی من کی ساری ٹیم بنے تو شاید پارٹی میں مضبوطی آجائے لیکن اس کے لئے سرجری کی ضرورت ہے ۔آل انڈیا کانگریس کمیٹی ،ورکنگ کمیٹی کو بھنگ کی جائے اور نئی ٹیم بنائی جائے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!