لاک ڈاو ¿ن میں دیش کے دو کروڑ تنخواہ دارسڑک پر

رزو بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا ماننا ہے کہ کووڈ 19-بحران کے اثر کے چلتے ہندوستانی معیشت میں بے یقینی کی ماحول ہے اور خوردہ مہنگائی میں تیزی جاری ہے ۔اکنامی کے بارے میں کمیٹی کا خیال ہے کہ برا وقت گزر گیا ہے جلد ہی خوردہ مہنگائی شرح میں گراوٹ آسکتی ہے ۔اور معیشت میں بہتری دیکھنے کو مل سکتی ہے ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ رزرو بینک یہ کیسے مان سکتا ہے کہ برا وقت گزر گیا ہے اور ہندوستانی معیشت جلد بہتر ہو جائے گی ۔بے روزگاری انتہا پر ہے کورونا نے ہزاروں جانیں لیں لاکھوں کو متاثر کیا کروڑوں لوگوں کی روزی روٹی چلی گئی سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانمی کے ایک تازہ مطالعے کے مطابق لاک ڈاو¿ن میں دس کروڑ دیہاڑی مزدور ریڑھی پٹری والے آٹو ڈرائیور جیسے غریب لوگ بے روزگار ہوئے اور تنخواہ پانے والے بھی دو کروڑ لو گ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔سی ایم آئی ای نے بتایا کہ اپریل میں 17.7کروڑ تنخواہ دینے والی نوکریاں چلی گئیں ۔اس کے بعد مئی میں ایک لاکھ نوکریاں گئیں ۔سی ایم آئی آئی کے چیف ایگزیکیٹو مہیش یاس نے بتایا کہ تنخواہ دار نوکریاں آسانی سے نہیں جاتی لیکن انہیں دوبارہ پانا زیادہ مشکل ہوتا ہے اور اس لئے ان کی بڑھتی تعداد تشویش کا باعث ہے ۔2019-20میں اپنے اوسط کے مقابلے انیس کروڑ نوکریاں کم ہوئی تھیں جو پچھلے مالی سال کے مقابلے بائیس فیصدی کم تھیں ۔اس دوران 68لاکھ دیہاڑی مزدوروں کی نوکری چلی گئیں ۔دوسرے جب نوکریوں سے محروم لوگ اپنے دھندے سے جڑے لاکھوں پرواسی مزدور اپنے گاو¿ں میں ہی روزگار ڈھونڈنے لگے لیکن سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔جون میں جو غیر ریاستی مزدور شہر لوٹ کر کام شروع کرنا چاہتے تھے ان میں مایوسی ہے ۔کیونکہ کورونا کے ڈر سے لوگ باہر نہیں نکل رہے ہیں اور ناہی کسی کو آنے دینا چاہتے ہیں ۔لہذا آٹو مالک اپنے آٹو اور ٹیکسیاں بیچ کر قسط چکا رہے ہیں ۔ریڑھی والوں کے گاہک ندارد ہیں ۔یہ بات الگ ہے کھیتی پر مزدوروں کا بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت پہلے سے ہی کم تھی اور اب ان کا اب وہاں رکنا غریبی میں آٹا گیلا ہونے جیسا ہے یعنی شہر میں کام نہیں گاو¿ں میں گزر بسر نہیں ہو سکتا لہذا ٹریجڈی بڑھنے کے آثا رہیں کیونکہ یہ بحران سپلائی میں کمی سے نہیں بلکہ زیادہ پیدا وار کی کھپت کو لیکر ہے لہذا سرکار ہر قیمت پر لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دے تاکہ وہ خریداری کر سکیں ۔ایم ایس ایم ای سیکٹر میں کام چلے روزگار پھر ملے اور معیشت کی گاڑھی پٹری پر آجائے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!