ایک درجن ریاستوں میں بھاجپا کانگریس میں سیدھا مقابلہ

2019کے لوک سبھا چناﺅ میں اب مشکل سے 24,25دن ہی بچے ہیں جبکہ بکھری اپوزیشن گٹھ بندھن اور کانگریس جہاں اپنے ہتھیاروں کو تیز کر رہی ہے وہاں بھاجپا بھی لاﺅ لشکر سے تیار ی میں لگی ہے ۔لیکن پھر بھی بھاجپا کے لئے کچھ ریاستوں میں چھوٹی موٹی پارٹیوں سے کچھ ریاستوں میں کانگریس سے سیدھا مقابلہ ہوگا ۔دیش کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں دو بڑی علاقائی پارٹیوں سماج وادی پارٹی اور بھوجن سماج پارٹی سے لڑ رہی بھاجپا اب کانگریس میں پرینکا گاندھی کے سرگرم سیاست میں آنے سے نئے پیدا سیاسی حالات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔بھاجپا کو پریشانی تقریبا ایک درجن ریاستوں اور مرکزی انتظام ریاستوں کو لے کر ہے یہاں پر ا سکے اور کانگریس کے درمیان سیدھا مقابلہ ہونے کا امکان ہے ۔ان کی 112لوک سبھا سیٹوں میں سے بھاجپا نے 2014میں سب سیٹیں جیتی تھیں جبکہ کانگریس کے پاس کل تین سیٹیں تھیں ۔نئے چنوتیوں سے نمٹنے کے لئے بھاجپا دیگر تیاریوں کے ساتھ اپنے عہد کے پرانے لیڈروں کی پھر سے پرکھ کرنے میں لگ گئی ہے ۔دیش کی 11ریاستوں اور مرکزی ریاستیں ایسی ہیں جن میں کانگریس بھاجپا میں سیدھا مقابلہ ہوتا رہا ہے ۔ان میں گوا،گجرات،ہماچل پردیش،مدھیہ پردیش،راجستھان،چھتیس گڑھ،دہلی وغیرہ شامل ہیں ۔2014میں بھاجپا پچھلی تین دہائی سے اپنے دم پر لوک سبھا میں اکثریت والی پارٹی بنی تھی 2019میں کیا پارٹی اپنی پرانی کارکردگی دہر اپائے گی ؟یہ سوال آج سبھی پوچھ رہے ہیں ۔حالانکہ میں بڑی ریاستوں میں اس کی پرفارمینس سامنے رکھنی ہوگی ان میں اترپردیش ،اترکھنڈ،بہار،جھارکھنڈ،مدھیہ پردیش،راجستھان،وغیرہ شامل ہیں ۔لوک سبھا کی 543سیٹیوں میں سے اس کی آدھی سیٹیں یعنی 278مندرجہ بالا ریاستوں میں آتی ہیں ۔بھاجپا کے لئے یہ ریاستیں کتنی اہم ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کی ماننا پڑئے گا کہ لوک سبھا چناﺅ کے مقابلے کانگریس کی پوزیشن بدلی ہوئی ہے اب پانچ سال پہلے جیسا ماحول آج نہیں ہے وہیں 2014میں جو مودی لہر تھی وہ آج نہیں ہے کانگریس اپوزیشن میں ہے اور کرپشن ،بے روزگاری ،اور زرعی بحران جیسے اشو مودی سرکار کو کٹ گھر ے میں کھڑا کر رہے ہیں ۔سال 2014کے انتخابات میں شہری اور دیہی ووٹروں نے کانگریس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن حالایہ تین ریاستوں کے اسمبلی چناﺅ کے نتیجوں اور لوک سبھا کے ضمنی چناﺅ نتائج میں کامیابی سے صاف ہے دیہ ووٹر کانگریس کی طرف لوٹ آیا ہے ۔راہل گاندھی کے لئے بھی پارٹی صدر کے طور پر یہ پہلا لوک سبھا چناﺅ ہے اور اس کے سامنے خود کو ثابت کرنے کی چنوتی ہے ۔پچھلے پانچ برسو ں میں راہل نے اپنی ساکھ بدلی ہے کئی ریاستوں کے چناﺅ میں ہار کے باوجود میدان میں ڈٹے رہے کانگریس صدر کی حیثیت سے پارٹی پر پکڑ مضبوط کرنے کے ساتھ خود کو جارحانہ اور صاف ستھرے نیتا کے طور پر پیش کیا ہے ۔گجرات اسمبلی چناﺅ راہل کے لئے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا کرناٹک میں ہاری بازی پلٹ کر جے ڈی ایس کے ساتھ گٹھ بندھن سرکار بنانے تین ریاستوں میں پرجوش راہل مرکزی حکومت پر روزانہ جارحانہ حملے کر رہے ہیں ۔بھاجپا کے لئے اس بار کانگریس کا صفایا کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟