آخر کیوں ہو رہی ہے مایاوتی ،کانگریس پر اتنا حملہ آور!
لوک سبھا کا سمر سامنے ہے امیدروارںکا امتحان شروع ہو چکا ہے ۔چناﺅی عمل کا آغاز ہو گیا ہے پورے دیش کے لئے حکمت عملی اور جوڑ توڑ کا سلسہ جاری ہے لیکن ہمیشہ کی طرح یوپی سب سے زیادہ سرخیاں بٹور رہا ہے اس لئے نہیں کہ یہاں بی جے پی کو سپا،بسپا اتحاد سے بڑی چنوتی مل رہی ہے نہ ہی اس لئے کہ یوپی وزیر اعظم نریندر مودی کا وائر ثابت ہو سکتا ہے بلکہ یہاں پارٹیوں میں یہ دوڑ مچی ہے کہ وہ خود کو بی جے پی کا سب سے کٹر مخالف ثابت کریں بھلے ہی ایسا کرنے میں آپس میں تو تو میں میں ہونے لگے ۔پچھلے کچھ دنوں سے کانگریس ،سپا ،بسپا ،کے بڑے نیتا ﺅں کے بیانات اور حکمت عملیوں پر نظر ڈالیں تو دلچسپ تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے کانگریس پارٹی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ اپنے دم خم پر چناﺅ لڑ رہی ہیں ۔ضرور لیکن ان کی سد بھاﺅنا سپا ،بسپا،آر ایل ڈی ،اتحاد کے ساتھ ہے لیکن مایا وتی کی طلسمی مخالفت ابھر رہی ہے وہ جتنا حملہ بھاجپا پر نہیں کر رہی ہیں اس سے زیادہ کانگریس پر حملہ آور نظر آرہی ہیں ۔شروع میں تو لگا کہ کانگریس پر سیدھا حملہ نپا تلا سیاسی حصہ ہو سکتا ہے لیکن اب لگ رہا ہے کہ اس میں کچھ دم ہے مایاوتی کے تازہ بیان کانگریس کو بے عزت کرنے جیسا لگتا ہے ۔بسپا چیف اپنے حمایتوں سمیت کسی کے بھی دل میں یہ غلط فہمی نہیں پیدا کرنا چاہتی کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کی دعویدار نہیں ہے سیاست کے حصاب کتا ب میں دو اور دو چار نہیں ہوتا اور سیاست میں دو اور دو پانچ بھی ہو سکتا ہے مایا وتی شاید اسی حساب کتاب کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں ۔جہاں اکھلیش یادو کانگریس کے معاملے میں تحمل سے پیش آرہے ہیں وہیں سوال یہ بھی ہے کہ آخر بہن جی اتنی بڑ بولی کیوں ہوتی جا رہی ہیں ؟کیونکہ اگر کانگریس کی حکمت عملی دیکھیں تو پارٹی نے خاص طور سے مشرقی اتر پردیش میں جو توجہ دی ہے اور اسی کڑی کے طور پر پرینکا گاندھی کو اس علاقہ کے لئے سیکریٹری جنرل بنایا ہے ان کی بوٹ یاترا بھی اسی علاقہ میں ہو رہی ہے ۔بسپا کے پاس خاص طور سے مغربی یوپی کی سیٹیں ہیں تو مایا وتی کانگریس کے ساتھ بچنے کی وجہ سے مغربی یوپی میں محدود ہیں یہاں کے مسلم ووٹوں کا فیصلہ کن ہوتا ہے یہاں کم سے کم 20سیٹیں واضح طور پر مسلم ووٹوں سے طے ہوتی ہیں اگر کانگریس چناﺅ میدان میں کھل کر اترتی ہے تو مسلم ووٹوں کا رجحان کانگریس کی طرف ہو سکتا ہے ۔اگر یہ ووٹ کانگریس کو جاتا ہے تو اس کا سیدھا نقصان سپا ،بسپا اتحاد کو ہوگا،مایاوتی کو یہ ڈر اکھلیش کے مقابلے میں اس لئے بھی زیادہ ستا رہا ہے کہ بسپا ،ماضی گذشتہ میں بھاجپا کے ساتھ سرکار بنا چکی ہے بھاجپا کے خلاف سیاست میں بسپا کا کھونٹا سپا کے مقابلے میں کمزور مانا جا سکتا ہے شاید یہی وہ کچھ وجوہات ہیں جس سے مایاوتی ابھی سے واضح کرنے میں لگ گئی ہیں ۔کانگریس سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔اصل سیاسی صورت حال یہ ہے کہ تمام تلخی کے باوجود بسپا اور کانگریس کو آگے چل کر آپسی حمایت کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔اگر مایاوتی وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں اور راہل گاندھی بھی یہ سپا پال رہے ہیں تو چناﺅ کے بعد ایک دوسرے کی ضرور ت پڑ سکتی ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں