مودی ہے تو ممکن ہے...لوک پروو2019

2014کے چناﺅ میں بی جے پی اکیلے 282سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی یہ اس کی شاندار پرفارمینس تھی اب جب کہ 2019کا چناﺅ کا عمل جاری ہے اس وقت سب سے بڑ ا سوال یہی ہے کہ بھاجپا کیا 2019میں پھر سے 2014کی تاریخ دہرا پائے گی ؟خود کے یا این ڈی اے کے بوتے بی جے پی کے لئے اقتدار کی راہ آسان ہے یا پھر اپوزیشن اتحاد اسے اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہو پائے گا ؟بی جے پی تو یہ مان کر بیٹھی ہے موجودہ ماحول اس کے حق میں ہے لیکن کئی ایسے اشو ہیں جو راہ میں روڑے ثابت ہو سکتے ہیں بی جے پی ہی نہیں بلکہ اپوزیشن بھی یہ مان رہی ہے کہ اس وقت دیش میں سب سے مضبوط پارٹیوں میں بھاجپا سب سے اوپر ہے اس کی اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس فی الحال زور آزمائش کرنے کے باوجود یہ دعوی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اقتدار میں لوٹے گی ۔بی جے پی کے حق میں مضبوط پہلو اس کے لیڈر و پی ایم نریندر مودی ہیں اس کا دعوی ہے کہ پانچ برس اقتدار میں بتانے اور کئی سخت اور متنازع فیصلوں کے باوجود اس کے لیڈر کی مقبولیت نے کوئی کمی نہیں آئی ہے ابھی بھی وہ دیش میں کسی بھی اپوزیشن لیڈر کے مقابلے کہیں زیادہ مقبو ل ہے ۔2014میں بھی اسی لیڈر شپ کے بوتے بی جے پی اپنے زور پر مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اپوزیشن بھلے ہی الگ الگ ریاستوں میں اتحاد کر رہی ہو۔لیکن بی جے پی لیڈر شپ نے این ڈی اے کے پاس سب سے زیادہ پارٹیاں ہیں جن کی تعداد چالیس کے آس پاس ہے جو 2014کے مقابلے میں زیادہ ہیں مہاراشٹر،پنجاب،بہار میں پرانے ساتھیوں کو متحد رکھنے میں کامیاب رہی بی جے پی اب ساﺅتھ سے لے کر نارتھ ایسٹ کنارے تک کے نئے ساتھیوں کے ساتھ اپوزیشن کی ہر چنوتی کا جواب دینے کو تیار ہے ایسے میں متحد اور پہلے سے بڑے این ڈی اے کے سامنے فی الحال بکھری ہوئی اپوزیشن کتنی چنوتی دے پائے گی یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔آج شیو سینا اکالی دل سمیت اپنی طاقت پر اپنے ریاستوں میں بے حد مضبوطی کے ساتھ بی جے پی کا ساتھ دے رہی ہیں پارٹی کو لگ رہا ہے کہ دیش بھر میں اس کے یہ ساتھی پارٹیوں کا ووٹ بھی اسے ملے گا شاید بی جے پی کو یہ بھی احساس ہونے لگا ہے کہ تمام پارٹیوں کے باوجود وہ 2014کو نا دہرا پائیں ؟وزیر اعظم نریندر مودی نے مرکز میں مضبوط و مکمل اکثریت والی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی تین دہائیوں سے معلق پارلیمنٹ نے دیش کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے صورت کی ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے نوٹ بندی کو اپنی سرکار کے فیصلے کا بچاﺅ کیا اور جس وجہ سے مکانوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے اور سستے مکان خریدنا ممکن ہو سکا ہے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ جیسا آپ سب جانتے ہیں کہ معلق پارلیمنٹ کے سبب بھارت کو تیس برسوں تک غیر مضبوط حکومت کا سامنا کر نا پڑا چونکہ کسی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اور صورتحال کئی مورچوں پر پیچھے ہو گئی اعداد شمار بتاتے ہیں کہ جب جب مرکز میں مضبوط حکومت رہی تب تب لوگوں کی بہبودی کے کام ہوئے مودی سرکار کا مطلب ہے کہ مکمل اکثریت والی سرکار جب دو یکساں نظریات والی پارٹیاں چناﺅ سے پہلے یا بعد میں مل کر حکومت بناتی ہیں تو اس طرح کے اتحاد میں سرکار کھلے طور پر کام کرنے کی امکان زیادہ ہوتے ہیں ۔جب پارٹیاں صرف اقتدار کے لئے اتحاد بناتی ہیں اور ان کی کوئی پروگرام نہیں ہوتا تو دیش کئی برسوں پیچھے چلا جاتا ہے ۔بے شک وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ مضبوط قیادت اور تنظیم کے بوتے تین سو سیٹیں جیتنے کا دعوی کر رہے ہوں لیکن کہیں نہ کہیں بھاجپا لیڈر شپ کو پوری طرح پتہ نہیں ہے کہ شاید وہ اس نمبر تک پہنچ پائیں جس وہ 2014میں پہنچے تھے ۔بی جے پی کی سیٹیں کم ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ٹائمس ناﺅ ،وی ایس آر،کے اپونین پول کی کئی باتیں سامنے آئیں ہیں جس کے مطابق نارتھ ایسٹ،مہاراشٹر ،کجرات،راجستھان،اتراکھنڈ کے نتیجے این ڈی اے کے لئے خوشخبری لا سکتے ہیں وہیں اترپردیش میں مہاگٹھ بندھن کو بڑی کامیابی ملتی دکھائی دے رہی ہے جہاں اس کو 57سیٹیں ملنے کا اندازہ ہے این ڈی اے کو 27سیٹوں پر سمٹنے کا خطرہ منڈرا رہا ہے وہیں یو پی اے کو محض2سیٹیں ملنے کا اندازہ ہے این ڈی اے کا ووٹ دشیر 4.4فیصد تک گھٹ کر 38.9ہو سکتا ہے جبکہ یو پی اے کے ووٹ شیر میں 4.1فیصد اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔پچھلی بار 543میں سے 336سیٹیں جیتنے والی این ڈی اے کو 252سیٹیں مل سکتی ہیں یو پی اے کو 147دیگر کو 144سیٹیں جا سکتی ہیں صاف ہے کہ این ڈی اے 272کے نمبر سے دور رہنے والی ہے ۔سیاسی مبصرین کا خیا ل ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کو سیدھے سیدھے بہتر سیٹیں ملنے جا رہی ہیں اس کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ 2014میں جو ماحول مودی کی لہر کی وجہ سے تھا اب اتنا نہیں نظر آرہا ہے دوسری بڑی پریشانی اس کی 2004کی تاریخ ہے اس وقت بھی بھاجپائی سرکار کے حق میں بھارت ادے جیسی کمپین چل رہی تھی لیکن نتیجے آئے تو پتہ چلا کہ بی جے پی کے ہاتھ سے اقتدار چلا گیا یو پی جیسی ریاست میں پچھلی مرتبہ ریکارڈ توڑ سیٹیں اس لئے جیتی تھیں کیونکہ پوری اپوزیشن بکھری ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ سپا بسپا کے اتحاد سے سخت چیلنج ملنے والا ہے اسی طرح بہار میں بھی کانگریس آر جے ڈی مضبوط گٹھ بندھن ہے یہی نہیں راجستھان گجرات مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں جہاں اس نے 90سے لے کر سو فیصدی تک سیٹیں جیتی تھیں ان میں سے گجرات کو چھوڑ کر باقی ریاستوں میں اب کانگریس اقتدار میں آچکی ہے ۔ایسے میں ان ریاستوں میں جو نقصان ہوگا اس کی بھرپائی کیسے ہوگی اس کے لئے سب سے بڑی چنتا یہ ہے کہ دیگر ریاستوں میں کانگریس بھلے ہی لیکن ترنمول کانگریس ڈی ایم کے کانگریس گٹھ بندھن ،چندر بابو نائیڈو سمیت مضبوط اپوزیشن علاقائی اپوزیشن پارٹیوں سے کڑی چنوتی ملے گی ۔دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟(ختم)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!