سادگی پسند گلی بوائے تھے منوہر پاریکر

ہندوستانی سیاست میں مسٹر کلین کی شکل میں جانے جانے والے گوا کے وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ان کا دیہانت اتوار کی شام میں ہو گیا تھا ان کو چودہ فروری 2018کو پیٹ میں درد کی شکایت کے بعد ممبئی کے لیلاوتی ہسپتال میں داخل کریا گیا ۔ابتداءمیں بتایا گیا فوڈ پوائزنگ سے بیمار ہیں بعد میں پتا چلا کہ انہیں کینسر ہے ۔یعنی ان کے گردے میں یہ خطرناک مرض ہے ان کا گوا ممبئی دہلی ،اور نیویارک کے اسپتالوں میں علاج ہوا انہیں 31جنوری کو دہلی کے ایمس میں داخل کرایا گیا لیکن بیماری اتنی خطرناک تھی کہ دیکھتے دیکھتے ان کا دیہانت ہو گیا ۔منوہر پاریکر ایک سادگی پسند ٹیکنو کریٹ و وزیر اعلیٰ تھے ۔گوا میں کانگریس کی تقسیم کے بعد اکتوبر 2000میں جب وہ پہلی بار بھاجپا سے وزیر اعلیٰ بنے تب سے لے کر آخری سانس تک پاریکر دو دہائی تک سیاست میں چھائے رہے ۔ان کی گوا ہی میں نہیں بلکہ پورے دیش میں اچھی ساکھ تھی اور ایک سیدھے سادھے مہذب اور نرم گو انسان تھے ۔لیکن سرجیکل اسٹرائیک حملے نے دکھا دیا دیش کے مفاد میں سخت فیصلوں سے بھی نہیں ہچکچائے سیاسی حریف بھی ان کی بے داغ ساکھ کے قائل رہے ۔63سالہ پاریکر چار مرتبہ گوا کے وزیر اعلیٰ رہے ۔اور نریندر مودی کی قیادت میں مودی وزیر دفاع کے طور پر تین برس خدمات پیش کیں ۔ان کے عہد میں ہندوستانی فوج نے پی او کے میں گھس کر آتنکی ٹھکانوں کو تباہ کیا تھا ۔آدھی بازوں والی شرٹ اور لیدر سینڈل ان کی پہچان تھی۔وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی پاریکر نے رہن سہن میں ذرا بھی تبدیلی نہیں لائے وہ اپنی ریاستی اسمبلی خود اسکوٹر چلا کر جایا کرتے تھے انہوںنے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی اپنے جدی گھر کو نہیں چھوڑا اور سرکاری مکان میں نہیں گئے منوہر پاریکر کو گوا کا گلی بوائے بھی کہا جاتا تھا ۔2014میں جب بھاجپا کا اجلاس ہوا تھا اور دیش میں بحث چھڑی ہوئی تھی کہ نریندر مودی پی ایم امیدوار ہوں گے یا نہیں ؟لیکن بھاجپا کی طرف سے مودی کا نام کوئی کھل کر آگے بڑھانے کو تیار نہیں تھا اسی اجلاس کے پہلی بار منوہر پاریکر نے نریندر مودی کے نام بطور پی ایم امیدوار کے لئے پیش کیا تھا ۔جب مودی 2014میں پی ایم بنے تو انہوںنے وزیر دفاع کا عہدہ سنبھالنے کو کہا لیکن شروع میں پاریکر راضی نہیں تھے اور انہوںنے دو مہینے کا وقت مانگا اور پھر دہلی آگئے ۔ان کے عہد میں 28,29ستمبر2016کی رات میں فوج نے پی او کے میں سرجیکل اسٹرائک کیا تھا ۔عام زندگی میں وہ ایک مثال بھی تھے ۔بیماری کے باوجود ڈھائی مہینے بعد اس سال دو جنوری کو اچانک سی ایم آفس پہنچ کر سب کو حیران کر دیا تھا ۔وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہے تھے ناک مٰں ڈپ لگی تھی لیکن عوامی خدمت کرنے میں ان کا جذبہ کم نہیں ہوا وہ وی آئی پی ہوٹل کے بجائے فٹ پاٹھ پر چائے ناشتہ کیا کرتے تھے یہیں تھے اپنے محلہ کی خبر گیری کر لیا کرتے تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ سبھی نیتاﺅں کو سڑک پر چائے والوں سے چائے پینی چاہیے کیونکہ ریاست کی ساری معلومات یہیں سے مل جاتی ہیں آخری وقت تک اپنی خطرناک بیماری سے لڑتے رہے ایسے نیتا کم ہی ہوتے ہیں ہم ان کو اپنی شردھانجلی پیش کرتے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟