آتنکی فنڈ سے بن رہے ہیں مسجدیں اور مدرسے

آتنکی فنڈ سے مسجدوں اورمدارس کی تعمیر و اس کے ذریعے سے کٹر پسندی پھیلانے کی سازش کا پردہ فاش ہوا ہے۔ دراصل یہ پچھلے مہینے نیشنل جانچ ایجنسی (این آئی اے) نے راجدھانی دہلی میں لشکر طیبہ کی آتنکی فنڈنگ کا پردہ فاش کرتے ہوئے تین لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ ملزمان سے پوچھ تاچھ کے دوران پتہ چلا کہ آتنکی پیسے کا جال صرف کشمیر میں ہی دہشت گردوں کو پیسہ مہیا کرانے تک محدود نہیں ہے۔ لشکر طیبہ مساجد اور مدرسوں کے ذریعے سے دیش کے اندرکٹر پسندی پھیلانے کی سازش کررہی ہے۔ آتنکی فنڈنگ کے لئے نظام الدین سے گرفتار محمد سلمان ہریانہ کے پلول ضلع کے ایک گاؤں میں مسجد کا امام بھی ہے۔ پوچھ تاچھ میں سلمان نے قبول کیا آتنکی پیسے کا استعمال اس نے مسجد ،مدرسہ بنوانے میں بھی کیا تھا۔ اس کے بعد این آئی اے نے مسجد کی تلاشی بھی لی تھی اور کئی دستاویزات بھی برآمد کئے تھے۔ این آئی اے نے سلمان کے ساتھ ساتھ حوالہ آپریٹر دریا گنج کے محمد سلیم عرف ماما اور سرینگر کے عبدالرشید کو بھی گرفتار کیا ہے۔ سلمان، سلیم اور رشید کو گرفتار کرنے کے بعد این آئی اے نے کوچہ گھانسی رام میں حوالہ آپریٹر راجا رام اینڈ کمپنی کے دفتر پر چھاپہ بھی مارا تھا۔ چھاپہ میں 1 کروڑ 56 لاکھ روپے نقد ، 47 ہزار روپے کی نیپالی کرنسی، 14 موبائل فون،5 پین ڈرائیو برآمد ہوئے تھے۔ این آئی اے کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ برآمد موبائل فون ، پین ڈرائیو اور ہاڈ ڈسک کی جانچ اور گرفتار ملزمان سے پوچھ تاچھ کے بعد آتنکی فنڈ سے آئے پیسے مسجد اور مدرسوں میں لگانے کا پتہ چلا۔ پلول کے اوٹا بڑ میں بن رہی مسجد ’خلافائے رشیدن‘ میں ٹیرر فنڈنگ معاملہ کو لیکر این آئی اے کے انکشاف سے گاؤں کے لوگ حیران ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس میں غلط پیسہ لگا ہے اس پر بھروسہ کرنا بیحد مشکل ہے لیکن این آئی اے کی ٹیم جانچ کررہی ہے تو کچھ تو گڑ بڑ ہوگی۔ مسجد تعمیر میں لگے راج مستری آس محمد کہتے ہیں یہ مسجد 2010سے بن رہی ہے اگر اس میں آتنکی تنظیموں کا پیسہ لگا ہوتا تو یہ مسجد ادھر میں نہیں ہوتی۔ پہلے ہی بن کر تیار ہوجاتی۔ ان برسوں میں مسجد میں رک رک کر کام چلتا رہا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ وسیم اکرم کا کہنا ہے اس معاملہ جانچ این آئی اے کررہی ہے۔ جب این آئی اے کی ٹیم آتی ہے تو وہ حفاظت کے لئے پولیس مانگتی ہے تو ان کی پوری حفاظت کی جاتی ہے۔ مگر جانچ کے معاملہ میں مقامی پولیس کا ابھی تک کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لگتا ہے پاک حمایتی یہ نیٹورک مدرسوں میں جدید تعلیم کو کسی قیمت پر لاگو نہیں ہونے دینا چاہتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!