سی بی آئی نے اپنے نمبر 2 افسر پر کیس درج کیا
تمام جرائم کی جانچ کرنے والی دیش کی سپریم جانچ ایجنسی سی بی آئی نے ایک غیر متوقع واقعہ میں اپنے ہی نمبر2 کے افسر اسپیشل ڈائریکٹر راکیش آستھانہ کے خلاف ایف آئی آر درج کر ایجنسی میں نئی تاریخ رقم کرڈالی۔الزام ہے کہ میٹ ایکسپورٹر معین قریشی سے میٹ معاملہ میں کلین چٹ دینے کے نام پر رشوت لینے کا الزام لگا ہے۔ سی بی آئی نے اس معاملہ میں خود لیٹر جاری کر اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ دو مہینے پہلے آستھانہ نے کیبنٹ سکریٹری سے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کے خلاف یہی شکایت کی تھی۔ سی بی آئی نے ستیش سانا کی شکایت کی بنیاد پر 15 اکتوبر کو اپنے اسپیشل ڈائریکٹر آستھانہ کے خلاف ایف آئی آر2018 کی آر سی13(A) درج کی۔ میٹ کاروباری معین قریشی کی مبینہ ملوث سے وابستہ 2017 کے ایک معاملہ میں جانچ کا سامنا کررہے سانا نے الزام لگایا ہے کہ آستھانا نے کلین چٹ دلانے پر مبینہ طور پر مدد کی تھی۔ سی بی آئی نے بچولئے سمجھے جانے والے منوج پرساد کو بھی 16 اکتوبر کو ممبئی سے لوٹنے پر گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ جانچ ایجنسی اس پورے معاملہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استھانا نے بھی اسی کیس میں سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما پر دو کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام لگا کر 24 اگست کو کیبنٹ سکریٹری کو شکایت کی تھی۔ سی بی آئی کے ترجمان ابھیشیک دیال نے بتایا کہ حیدر آباد کے باشندے ستیش بابو سانا کی شکایت پر استھانا سی بی آئی، ایس آئی ٹی کے ڈی ایس پی دیویندر کمار کے علاوہ منوج پرساد ،پرمیشور پرساد اور نامعلوم لوگوں کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔ الزام یہ بھی ہے کہ دسمبر 2017 سے اکتوبر 2018 کے درمیان کم سے کم پانچ بار رشوت کی رقم لی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ معین قریشی کیس کی جانچ استھانا کی قیادت میں ایس آئی ٹی کررہی ہے۔ سی بی آئی میں ڈائریکٹر آلوک کمار ورما کے بعد استھانا ہی دوسرے سب سے بڑے افسر ہیں۔ ذرائع کے مطابق سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما ایتوار کی دیر شام پی ایم نریندر مودی سے ملاقات کر انہیں پورے معاملہ کی جانکاری دی ہے۔ گجرات کیڈر کے آئی پی ایس افسر راکیش استھانا اس اسپیشل ٹیم کی رہنمائی کررہے ہیں جو اگستا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر گھوٹالہ اور صنعتکار وجے مالیا کے ذریعے لئے گئے قرض میں دھوکہ دھڑی جیسے معاملہ دیکھ رہا ہے۔ کیونکہ دونوں ہی افسر ایک دوسرے پر کرپشن کے معاملوں کی جانچ میں ہیرا پھیری کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اس لئے اگر عام لوگ دونوں کی ایمانداری کو مشتبہ سمجھیں تو اس کے لئے انہیں قصوروار نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ اتنا تو تقریباً ثابت ہوتا ہی ہے کہ سی بی آئی میں بھی کرپشن چلتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کرپشن کے بڑے معاملوں کی جانچ میں سی بی آئی کا ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے۔ اس کیس سے جانچ ایجنسی کی ساکھ تو بگڑی ہی ہے ساتھ ساتھ اس کے بھروسے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہورہا ہے۔ اب تک ہر کیس سی بی آئی کو دینے کی مانگ اس لئے اٹھتی تھی کیونکہ جنتا کو یہ یقین تھا کہ یہ ایک ایسی ایجنسی ہے جو منصفانہ اورصحیح جانچ کرے گی۔ اصل قصورواروں کا پردہ فاش کرے گی ۔ اگر سی بی آئی کو اپنی ساکھ بچانی ہے اور اپنا بھروسہ برقرار رکھنا ہے تو اس معاملہ کو دبانے کے بجائے اس کی تہہ تک پہنچنا ہوگا اور دیش کو بتانا ہوگا کہ سچائی کیا ہے؟ ویسے یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ دیش کی سپریم جانچ ایجنسی خود ہی اس طرح کے الزامات میں گھر جائے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں