تیواری کا جانا ایک اصلاح پسند عہد کا خاتمہ

نارائن دت تیواری ہمارے بیچ نہیں رہے۔ تیواری جی کا جانا میرے لئے ایک بھاری نقصان ہے۔ ابھی بیمارہونے سے پہلے ہی وہ میرے نواس پراجولا جی کے ساتھ آئے تھے۔ لمبے عرصے سے بیمار چل رہے تیواری جی نے اپنی آخری سانس جمعرات 18 اکتوبر کولی۔ اتفاق دیکھئے کہ 18 اکتوبر ہی ان کی 93 ویں سالگرہ تھی وہ 18 اکتوبر 1925 ء میں پیدا ہوئے اور 18 اکتوبر 2018 کو ان کا دیہانت ہوگیا۔ این ڈی تیواری کوطویل ہندوستانی سیاست میں الگ طرح سے دیکھا جاتا تھا۔ 17 برس کی نوعمری میں کھیل کے بجائے نارائن دت تیواری نے آزادی کی لڑائی کو چنا۔ پہلے نینی تال اور بعد میں بریلی جیل میں تیواری جی نے کئی طرح کے کاموں سے برطانوی حکومت کو سیدھی چنوتی دی۔ انہوں نے اپنی پرجا سوشلسٹ پارٹی سے ممبر اسمبلی بنے اور کانگریس میں شامل ہونے کی داستان الگ ہے۔ وہ دو ریاستوں اترپردیش ۔اترا کھنڈ کے وزیر اعلی بننے والے اکیلے لیڈر تھے۔ نارائن دت تیواری کی پیدائش نینی تال کے بلوتی گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کے والد پون آنند تیواری سرکاری محکمہ میں افسر تھے۔ انہوں نے سول نافرمانی تحریک کے دوران نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ این ڈی تیواری کی سیاست میں اینٹری تحریک آزادی کے ذریعے تھے۔ 1947 میں آزادی کے سال میں ہی وہ الہ آباد یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے صدر چنے گئے۔ دیش آزادہوا اور تیواری بھی اترپردیش میں 1952 میں ہوئے پہلے اسمبلی چناؤ میں نینی تال سے پرجا سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر چناؤ لڑے۔ یوپی کا پہلا چناؤ تھا اورتیواری نے جیت کے ساتھ پرچم لہرایا۔ اس کے بعد سے ان کا لمبا سیاسی سفر شروع ہوا۔ وہ دو ریاستوں کے وزیر اعلی رہنے کے ساتھ ساتھ مرکزی وزیر بھی رہے۔ انہوں نے سال2014 میں اجولا شرما سے 88 برس کی عمر میں شادی کی تھی۔ قریب 60 سال کے سیاسی سفر میں این ڈی تیواری نے کئی طرح کے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ان کی نجی زندگی میں کئی ذاتی تنازع بھی پیدا ہوئے۔ تیواری جی اس وقت کی سیاست کے سب سے زیادہ نرم گو لیڈروں میں سے ایک تھے۔ اسی نرم گوئی کے سبب کئی تنازعوں سے انہوں نے کوئی ایسا دھماکہ نہیں ہونے دیا۔ وہ سیاست میں حریف اور اپنی پارٹی کے ممبران اسمبلی و نیتاؤں کو برابر عزت دیا کرتے تھے۔ حالانکہ اس طرح کی عزت کے سبب کئی دوسرے تنازع بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ تیواری کے اس سیاسی طریقہ کار کے سورگیہ پردھان منتری اٹل بہاری واجپئی بھی قائل تھے۔ 2003 میں تیواری نے وزیر اعظم واجپئی کا نینی تال زور دار خیر مقدم کیا اور اس سے خوش ہوکر اٹل جی نے تیواری کو اتراکھنڈ کی ترقی کے لئے کئی طرح کی رعایتیں دی تھیں۔ آگے چل کر ان رعایتوں نے سڈکل کے قیام میں اہم ترین تعاون دیا تھا۔ یہ ہی نہیں پلاننگ کمیشن نے تیواری کیساتھ کام کرچکے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے رشتوں کا بھی فائدہ تیواری لینے سے نہیں چوکے۔ تیواری جی کے جانے کا ہمیں بہت دکھ ہے۔ بھگوان ان کی آتما کو شانتی دے۔ اوم شانتی اوم۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟