کیا عدالتی حکم سے پٹاخے چلنے بند ہوں گے

سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ 7 نومبر کو دیوالی کے موقعہ پر آلودگی اور کاروبار کے درمیان توازن بنائے رکھتے ہوئے رات8 بجے سے 10 بجے کے درمیان پٹاخہ چھوڑے جاسکتے ہیں۔ منگل کو سنائے گئے اپنے فیصلہ میں اس نے پٹاخوں کی فروخت پر بھی پوری طرح پابندی لگانے سے منع کردیا ہے لیکن اس بارے میں عدالت نے کچھ شرطیں ضرور طے کردی ہیں۔ عدالت نے صاف کیا ہے کہ پٹاخہ صرف لائسنس یافتہ کاروباری ہی بیچ سکتے ہیں۔ وہ بھی آلودگی کو کم سے کم نقصان پہنچانے والے پٹاخہ۔ ان کی آن لائن بکری پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔ عدالت نے دیوالی کے دن پٹاخہ چھوڑنے کی وقت میعاد بھی طے کردی ہے۔ دیوالی جیسے تہوار کے موقعہ پرخوشیوں کا اظہار کرنے کے لئے بہتر کھانے پینے اور روشنی کی سجاوٹ سے پیدا جگ مگ کے علاوہ کان پھوڑ پٹاخوں کا سہارا لوگوں کو کچھ دیر کی خوشی تو دے سکتا ہے لیکن اس کا آلودگی پر وسیع اثر ہوتا ہے۔ پٹاخوں کی آواز اور دھوئیں کی آلودگی سمیت لوگوں کی صحت پر پڑنے والے خطرناک اثر کے پیش نظر ان سے بچنے کی صلاح لمبے عرصے سے دی جاتی رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ ان سے ہونے والے نقصانات کو سمجھتے بھی ہیں مگر ان سے دور رہنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خاص کر بچوں میں بم چھوڑنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ ہوائی راکٹ اڑانے کے لئے بوتلوں میں اسے رکھ کرمزہ لیا جاتا ہے۔ بیشک ماحولیاتی ماہرین سے لیکر کئی بیدار شہریوں نے اس معاملہ پر لوگوں کو سمجھانے سے لیکر پٹاخوں پر روک لگانے کے لئے عدالتوں تک کا سہارا لیا ہے لیکن اس میں شبہ ہے کہ ان پر پوری طرح سے روک لگانا ناممکن ہو؟مشکل یہ ہے کہ انہیں روکنے کیلئے ہمارے پاس اتنی مین پاور نہیں ہے کہ وہ گھر گھر جاکر لوگوں کو بم چھوڑنے سے روک سکے۔ ہاں بھاری بموں اور ایسے پٹاخے جو آلودگی کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، جیسے لڑیاں ان پر پابندی لگنی چاہئے تو شاید اس میں کمی آئے گی لیکن پھر سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ پٹاخوں کا کاروبار کروڑوں، اربوں روپے کا ہے اور اس میں لاکھوں لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ مالی اعتبار سے بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اب ایکو فرینڈلی پٹاخہ بھی آگئے ہیں۔ ان سے نہ تو آواز کی آلودگی ہوتی ہے اور نہ ہی ہوائی آلودگی پر اتنا اثر پڑتا ہے۔ یہ اتنی مقدار میں دستیاب نہیں ہوتے۔ پٹاخوں کا دھواں اور شور اپنے پیچھے کئی طرح کی بیماریاں اور آلودگی کے لئے طول المدت نقصان چھوڑ جاتا ہے۔ اگر خوشی ظاہر کرنے کے لئے ایسے طور طریقوں کا سہارا لیا جائے تو بغیر کسی امتیاز کے ماحول کو وسیع نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ مسئلہ تو صرف حل کا ممکن ہے لیکن سماج کو بھی سمجھنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟