ٹرین سے کٹ کر موت کا سب سے بڑا حادثہ

ہے رام ! دسہرہ تہوار پر خوشیاں منا رہا دیش اس وقت ماتم میں ڈوب گیا جب امرتسر ٹریک پر کھڑے ہوکر جلتے راون کو ٹرین روند کر گزر گئی۔ راون دہن دیکھ رہے 63 لوگوں کو 10 سیکنڈ میں کچلتی چلی گئی۔ 142 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے، مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 59 بتائی گئی ہے۔ دسہرہ جیسے تہوار پر اتنا خوفناک اور دل دہلانے والا حادثہ غم میں ڈوب جانے والا ہے کیونکہ اس میں دورائے نہیں اگر مقامی انتظامیہ نے ذرا بھی چوکسی اور سمجھداری کا ثبوت دیا ہوتا تو جوش خروش سے لبریز لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکتا تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ جس وقت یہ حادثہ ہوا اس وقت جلتے راون کے پٹاخوں کی گونج سے ریلوے ٹریک پر کھڑے راون دہن دیکھنے والوں کو ٹرین کی سیٹی سنائی نہیں پڑی۔ نتیجتاً پلک جھپکتے ہی وہ تیز رفتار سے آرہی ٹرین کی زد میں آگئے۔ چوڑا بازار پھاٹک کے پاس دسہرہ پروو کے دوران راون دہن کے وقت 6:45 بجے میدان میں بھاری بھیڑ کے سبب لوگ ٹریک پر کھڑے ہوکر پروگرام دیکھ رہے تھے تبھی جالندھر۔ امرتسر ڈی ایم یو ٹرین آگئی۔ انجن ڈرائیور نے بار بار ہارن بجایا لیکن پٹاخوں کی آواز میں یہ دب گیا۔ مرنے والوں میں بچے، عورتیں اور نوجوان بھی ہیں۔ حادثے کے وقت ٹریک پر تقریباً 200 لوگ تھے ۔ ریلوے کی تاریخ میں ایسا خطرناک حادثہ کبھی نہیں ہوا۔واردات کی جگہ پر 150 میٹر تک لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ چوڑا بازار میں حادثہ کو کیا بچایا جاسکتا تھا؟ سوال اٹھ رہے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ٹرین کی پٹری کے بالکل قریب راون دہن کی اجازت کیوں اور کیسے ملی؟ دوسرا سوال انتظامیہ نے میلے کے لئے حفاظت کا ضروری بندوبست کیوں نہیں کیا، تیسرا سوال ضلع مجسٹریٹ نے ٹرینوں کی رفتار دھیمی رکھنے کے لئے ریلوے کو کیوں نہیں کہا؟ سوال نمبر چار میلہ کے دوران یہ یقینی کیوں نہیں کیا گیا کہ لوگ پٹری پر نہ جائیں۔ پانچواں سوال پولیس نے منتظمین کو پختہ حفاظتی انتظامات کو سمجھایا کیوں نہیں؟ منتظمین نے چھوٹے گراؤنڈ میں راون دہن کا انعقاد کیا تھا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں وہاں پہنچے، یہ پروگرام کانگریس کے نیتاؤں نے کیا تھا لیکن انتظامیہ سے اجازت نہیں لی تھی۔ دسہرہ منتظمین کے لئے قاعدے بنے ہیں۔ بیٹھے کا انتظام، پارکنگ کے علاوہ فائربرگیڈ اور ایمبولنس ضروری ہے۔ بھیڑ کے باوجود انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔ پروگرام کی جگہ پر سکیورٹی انتظاموں کی جانچ کے بعد پولیس اجازت دیتی ہے لیکن وہاں پولیس میں انتظاموں کو نظرانداز کیا۔ نوجوت کور نے پہلے پی اے کو بھیڑ دیکھنے بھیجا ، اس کے بعد وہ 6 بجے پہنچیں اور 6:40 تک بھاشن دیتی رہیں۔ 6:50 پر راون کا پتلا پھونکا، اتنے میں ٹرین آگئی۔ بعد میں نوجوت کولوگوں کو قصوروار بتاتی رہیں۔ حادثہ کے بعد وہ موقعہ سے چلی گئیں۔ ڈھائی گھنٹے بعد 9:20 پر ہسپتال پہنچی، وہاں کہا کہ کرسیاں خالی تھیں ، لوگ اونچی جگہ سے ویڈیو بنانے کے لئے ریلوے ٹریک پر کھڑے ہوگئے۔ اس دردناک حادثہ میں مرنے والے لوگوں میں زیادہ تر مزدور تھے۔ اس چوڑا پھاٹک کے پاس حادثہ ہوا اس کے آس پاس مقامی لوگوں کے علاوہ یوپی ۔بہار کے مزدور زیادہ تعداد میں رہتے ہیں۔ امرتسر کے قریب ہوا حادثہ ایک بار پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتظامیہ اور ساتھ ہی دھارمک پروگرام منعقد کرنے والے سبق سیکھنے سے انکار کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہی ہوسکتی ہے لاپروائی کو نظرانداز کرنا اور ڈسپلن کی کمی کے چلتے ہونے والے حادثہ کے لئے ذمہ دار لوگوں کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جارہا ہے۔ ایسے مذہبی پروگراموں میں حادثوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کبھی بھیڑ میں کچل جاتے ہیں ،تو کبھی ٹرین سے۔ بیشک اب جانچ ہوتی رہے، معاوضے دیتے رہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہیں پر جانے والے واپس آئیں گے نہیں۔ سبھی کو سوچنا چاہئے کہ جان بوجھ کر لاپروائی کے چلتے ہونے والے ایسے حادثہ سے لوگوں کی جان ہی نہیں لے رہے بلکہ دنیا میں بھارت کی ساکھ بھی گرا رہے ہیں۔ متوفین کو ہماری شردھانجلی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!