گیارہ بڑے فیصلے دے کر ریٹائرڈ ہوں گے چیف جسٹس دیپک مشرا

تمام اختلافات کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے جاتے جاتے روایت کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ریٹائرڈ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس ترون گگوئی کو اگلا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی ہے۔ اگر مرکزی حکومت اس پر مہر لگادیتی ہے (جسے ایک خانہ پوری مانا جاتا ہے) تو دیش کے 46 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے گگوئی کو 3 اکتوبر کو حلف دلایا جائے گا۔ موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا 2 اکتوبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ جسٹس گگوئی کی میعاد ایک سال سے کچھ زیادہ کی ہوگی۔ قریب ترین ذرائع نے ایک ستمبر کو اس بات کی تصدیق کی تھی کہ تمام اختلافات کے باوجود چیف جسٹس گگوئی کے نام کی سفارش کر روایت کی تعمیل کریں گے۔ جسٹس گگوئی سمیت سپریم کورٹ کو چار سینئر ججوں نے اس برس جنوری میں ایک پریس کانفرنس کر مختلف اشوز کو لیکر چیف جسٹس دیپک مشرا کی تنقید کی تھی۔ چاروں جج صاحبان نے خاص طور سے کچھ بنچوں کو معاملہ میں الاٹمنٹ کا اشو اٹھایا تھا۔ سپریم کورٹ میں جج صحابان کی تقرری سے متعلق ایک عرضداشت کے مطابق بھارت کے چیف جسٹس کے عہدہ پر سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج کی تقرری ہونی چاہئے جو اس عہدہ کے لئے موزوں مانا جائے۔ موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے کام کے دنوں میں سپریم کورٹ کئی اہم فیصلے دے سکتی ہے۔ ان اشوز کی بنیاد پر ایودھیا کا مقدمہ ، سبریمالا مندر میں ماسک دھرم والی عورتوں کی اینٹری امتیاز پر مبنی بالغ قانون اور ایس سی ایس ٹی کے لئے پرموشن میں ریزرو یشن شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم مقدمہ ہے جس میں طے کیا جا نا ہے کہ جرائم کے مقدموں کا سامنا کررہے سیاستدانوں کے مقدمے کس اسٹیج پر ہیں۔انہیں چناؤ لڑنے کے لئے نا اہل ٹھہرایا جائے گا یہ فیصلہ بیحد اہم ترین ہے کیونکہ اس سے بھارت کی سیاست کو صحت مند بنانے میں بہت برا یوگدان ہوگا۔ سیاست میں بڑھتے جرائم کرن کو روکنے میں اگر یہ فیصلہ آتا ہے تو بہت مدد ملے گی۔ یہ سبھی اہم ترین اشو ان آئینی بنچ کے پاس ہیں جن کی چیف جسٹس دیپک مشرا سماعت کررہے ہیں۔ جسٹس مشرا کے عہد میں باقی بچے دنوں میں عورتوں کے سبریمالا مندر میں داخلہ ،داؤدی بوہرا مسلم فرقہ کی عورتوں کے ختنے کااشو، ہندو سے شادی کرنے پر پارسی عورتوں کو اپنے والد کی آخری رسوم میں شامل نہ ہونے کی روایت جیسے اہم ترین اشو پر سماعت پوری ہوسکتی ہے۔ ایودھیا معاملہ میں اس بات پر فیصلہ ہوگا کہ2010 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت تین ججوں کی بنچ کرے گی یا کوئی بڑی بنچ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!