جمہوریت کا پریشر کوکر پھٹنے والا ہے
سرخیوں میں چھائے بھیما کوریگاؤں معاملہ میں جس طرح سے پونے پولیس نے الگ الگ شہروں سے چھاپہ ماری کر پانچ جانے مانے انسانی حقوق رضاکاروں کوگرفتار کیا ہے اس پر عزت مآب سپریم کورٹ نے سخت رخ دکھایا ہے۔ سپریم کورٹ نے رومیلا تھاپر اور نامورکہانی نگار دیوکی جین ، ستیش دیش پانڈے اور مازادارووالا کی گرفتاری کو چنوتی دینے والی عرضی پر تبصرے پر نا اتفاقی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی سیفٹی والو ہے اگر آپ (سرکار) اس کی اجازت نہیں دے گی تو سیفٹی والو پھٹ جائے گا۔ کورٹ نے ساتھ ہی پانچوں رضاکاروں کو اگلی سماعت تک گھر میں نظر بند رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ وہ اب پولیس کی نگرانی میں اپنے گھروں میں ہی رہیں گے۔ پونے پولیس نے گزشتہ منگلوار کو حیدر آباد سے تیلگو شاعر ورور کی لاش ممبئی سے ورنانے گوجاولز اور ارون گھریڑا ، فرید آباد سے سدھا مہادیواور دہلی سے صحافی گوتم نولکھا کو گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے خلاف اپنی عرضی میں چیف جسٹس کی رہنمائی والی بنچ پر عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے ابھیشیک منو سنگھوی سمیت نامی وکیل سے گرفتاری کے خلاف دلیل دی تھی کہ بھامو کا کوریگاؤں تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ایف آئی آر میں ان کے نام تک نہیں ہیں پھر بھی 9 مہینے کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا یہ پولیس پاور کا بیجا استعمال ہے جو غیر مناسب ہے۔ انہیں دبانے کی کوشش ہوئی ہے۔ پونے پولیس نے پچھلے جون میں جب پانچ لوگوں کو گرفتار کیا تھا تب بھی احتجاج ہوا تھا لیکن اس وقت کے تیور ایسے نہیں تھے۔ دراصل پونے پولیس اس برس کے شروع میں بھیما کوریگاؤں سے شروع ہوئے تشدد اور اس کے بڑھنے کی جانچ کرتی ہوئی اس نتیجے پر پہنچی کے اس کے پیچھے شہروں میں سماجی اور کلچرل انجمنوں کے نام پر کام کررہے ماؤوادیوں کا رول ہے۔ انہی گرفتاریوں میں سے ایک ملزم کے میل سے جو خط ملا اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سورگیہ راجیو گاندھی کی طرح ہتیا کرنے کے منصوبے کا ذکر تھا۔ اس کے بعد پولیس اور سرگرم ہوئی۔ جانچ کے بعد اس کے پاس کچھ نام آئے جس میں گرفتاریاں ہوئیں۔ ان میں ورورا راؤ جیسے مصنف اور کوی نے ماؤ وادیوں کا حمایت ہونے کو کبھی چھپایا بھی نہیں۔ بتادیں بھیما کوریگاؤں واقع سے پہلے چلگار پریشد منعقد کی گئی تھی جس میں کافی بھڑکیلی تقریریں ہوئیں تھیں۔ اس کے شوریہ دیوس منا اس میں بھی کچھ نیتاؤں پر ایسی تقریریں کرنے کا الزام ہے۔ پولیس کا ماننا ہے کہ یہ سب سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھی جس کے پیچھے شہروں میں فرضی نام سے رہ رہے ماؤوادیوں کا ہاتھ تھا۔ بھیما کوریگاؤں معاملہ میں ہوئی تازہ کارروائی کو وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر بڑے نیتاؤں کے قتل کی سازش سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے اور سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ نکسلی لیڈروں کے درمیان جن دو خطوں کا تبادلہ ہوا تھا اس میں پردھان منتری مودی بھاجپا صدر امت شاہ اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے قتل کے پلان سے جڑی تفصیل تھی۔ ان پانچوں کی گرفتاری اسی جانچ کی سمت میں ایک قدم ہے۔ ان میں ایک خط 2016 کا ہے جس میں مودی، شاہ اور راجناتھ کے قتل کی سازش کا ذکر ہے جبکہ2017 کے خط میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی جیسی قتل کی واردات انجام دینے کا تذکرہ ہے۔ مہاراشٹر کے گڑھ چرولی میں اپریل میں 39 نکسلیوں کے مارے جانے کے بعد چلی کارروائی میں ان خطوں کا پتہ چلا۔حکام کے مطابق دوسرے خط میں پلان کو انجام دینے کے لئے امریکی ایم ۔4 رائفل اور دیگر ہتھیاروں کو بھی حاصل کرنے کا تذکرہ ہے۔ اس میں وکروں سے ایسے ہتھیار خریدنے کے لئے کروڑوں روپے اکٹھا کرنے کو کہا گیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر و سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے کہا وہ انسانی حقوق رضاکاروں اور ایک وکیل اور ایک کوی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں ان لوگوں سے قطعی اتفاق نہیں رکھوں گا جو کٹر پسندی یا انتہا پسندی کا نظریہ رکھتے ہیں لیکن میں وہ نظریات ظاہر کرنے سے اس کے حق کی حفاظت کروں گا۔ یہاں آزادی کا مطلب ہے کٹر پسندی رکھنے والے کسی بھی شخص کو تبھی سزا دی جاسکتی ہے جب وہ تشدد میں شامل ہو یا تشدد بھڑکانے کی حمایت میں ہو یا تشدد کو اکسانے میں مدد کرے۔ ششی تھرور نے کہا کہ انہیں ماؤ واد سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن نظریات ،بھروسہ و اظہار رائے کی آزادی کسی جمہوریت میں بنیادی حق ہے۔ اگر پولیس جو دعوی کررہی ہے وہ سچ ہے تو ہماری رائے میں فرضی نام سے رہ رہے 6 ماؤ وادیوں کے تئیں کسی طرح کی ہمدردی ظاہر نہیں کی جاسکتی۔ اگر شہروں میں فرضی بھیس میں بیٹھے ماؤوادی تشدد برپا رہے ہیں تو یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے اور اس مکینزم کو ہر حالت میں تباہ کیا جانا چاہئے۔ اس کیس میں پچھلی جون میں ہوئی گرفتاریوں کی بنیاد پر ہی مزید گرفتاریاں ہوئیں اور پولیس کے مطابق کچھ وقت تک نظر رکھنے کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود پولیس انہیں ٹرانزٹ ریمانڈ پر نہیں لے پائی اس کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے۔ بیشک عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے تک اس معاملہ میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ ٹھوس ثبوت اور درکار تیاریوں کے باوجود پونے پولیس اپنے مقصد میں کامیاب کیوں نہیں ہوئی؟ سپریم کورٹ کا تبصرہ ہے کہ ٹرانزٹ ریمانڈ مانگتے ہوئے پولیس نے درکار خانہ پوری کی تعمیل نہیں کی لہٰذا پونے پولیس کے لئے اب یہ بڑی چنوتی ہے کہ وہ عدالت کے سامنے ٹھوس ثبوت و دستاویزات پیش کرے اور یہ ثابت کرے کہ پردھان منتری اور دیگر سینئر وزرا کے قتل کی سازش واقعی تھی اور اس میں کون لوگ شامل تھے اور یہ بھی بتائے کہ یہ کارروائی کسی سیاسی مقصد سے تو نہیں کی گئی؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں