ریئل اسٹیٹ میں امرپالی جیسی دھوکہ دھڑی نہیں دیکھی

لوگوں سے پیسہ لیکر اپنی رہائشی اسکیموں کو ادھورا چھوڑ کر ہاتھ کھڑے کرنے والی ریئل اسٹیٹ کمپنیاں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایسے تمام بلڈروں کو بار بار پھٹکار لگائی ہے لیکن اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ تازہ مثال ریئل اسٹیٹ کمپنی امرپالی گروپ کی ہے۔ 42 ہزار خریداروں کو فلیٹ دینے میں ناکام رہی امرپالی گروپ کو سپریم کورٹ نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا یہ بہت بڑی دھوکہ دھڑی ہے۔ ریئل اسٹیٹ میں ہم نے پہلے کبھی ایسی جعلسازی نہیں دیکھی۔ اگر 100 لوگوں کو بھی جیل بھیجنا پڑا تو ہم بھیجیں گے۔ جسٹس ارون مشرا اور یو یو للت کی بنچ نے صاف کہا ایک بھی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔ امرپالی گروپ کے ادھورے پروجیکٹ پورے کرنے کے لئے نیشنل بلڈنگ کنسٹرکشن کارپوریشن (این بی سی سی) نے کورٹ کے سامنے حامی بھر لی ہے لیکن اس میں وہ پیسہ خرچ نہیں کرے گی۔ این بی سی سی کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل پنکی آنند نے بنچ کو بتایا کہ سبھی پروجیکٹ پورے کرنے کے لئے 8500 کروڑ روپے کی ضرورت پڑے گی۔ جسٹس مشرا نے امر پالی گروپ کے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ ساری پراپرٹی این بی سی سی کو سونپ سکتے ہیں؟ امرپالی گروپ کی ساری پراپرٹیوں کو بیچنے کے بعد بھی 2038 کروڑ روپے کم پڑیں گے۔سپریم کورٹ نے این بی سی سی سے کہا کہ ہم آپ کو پروجیکٹ شروع کرنے کے لئے ضروری فنڈ مہیا کروائیں گے۔ ساتھ ہی امرپالی سے کہا کہ وہ این بی سی سی کی تجویز کے بارے میں جواب داخل کرے۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا فلور اسپیس انڈکس (ایف ایس آئی) بیچنے سے قریب 2100 کروڑ روپے آسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پروجیکٹس پورے ہوسکتے ہیں۔ ان ڈیفالٹر بلڈروں کے مقدمات کی سماعت کی تاریخ پر تاریخ کی مثال نہیں بننی چاہئے کیونکہ غیر ذمہ دار ریئل اسٹیٹ کمپنیوں کی منمانی کے شکار لوگ صبر کھو رہے ہیں۔ وہ جن امیدوں کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچے ہیں وہ فوری طور پر پوری ہونی چاہئیں۔ وقت پر اپنے پروجیکٹ پورا نہ کرنے والی ریئل اسٹیٹ کمپنیوں میں کئی ایسی ہیں جو اپنے اپنے فلیٹ، ویلا(بنگلہ) وغیرہ کا انتظار کررہے لوگوں کے ساتھ ساتھ بینکوں کے پیسے ہڑپ گئی ہیں۔ ان سبھی کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ مانا جارہا تھا کہ ’’ریرا‘‘ کے نام سے مشہور ریئل اسٹیٹ سے متعلق قانون کے لاگو کے ہونے کے بعد لوگوں کو اپنے گھر کے سپنے دکھا کر منمانی کرنے والی کمپنیوں پر لگام لگے گی، لیکن یہ مایوس کون ہے کہ ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کمپنیوں نے اس قانون سے بھی بچنے کے لئے خامیوں کا توڑ نکال لیاہے۔ ایک اعدادو شمار کے مطابق دہلی این سی آر ، ممبئی سمیت سات بڑے شہروں میں پانچ لاکھ سے زیادہ فلیٹ طے میعاد گزر جانے کے بعد بھی پورے نہیں ہو پائے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟