ریزرو بینک کے اعدادو شمار ثابت کرتے ہیں کہ نوٹ بندی کتنی خطرناک رہی

آخر کار ریزرو بینک نے نوٹ بندی کے بعد واپس آئے نوٹوں کی گنتی پوری کرلی ہے۔ بینک نے بتایا کہ بند ہوئے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں میں سے 93.3 فیصدی نوٹ بینکوں میں واپس آگئے ہیں۔ صرف 10720 کروڑ روپے کی رقم واپس نہیں آئی۔ سرکار کی طرف سے اقتصادی معاملوں کے سکریٹری سی ایس گرگ نے بتایا کہ نوٹ بندی کافی حد تک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ انہوں نے دعوی کیا نوٹ بندی سے بلیک منی پر لگام لگی ہے۔ آتنک وادیوں کی فنڈنگ رکی، ڈیجیٹل لین دین بڑھا اور نقلی نوٹوں کا مسئلہ ختم ہونے جیسے مقصد پورے ہوئے۔ کانگریس ترجمان منیش تیواری نے کہا کہ پی ایم مودی نے نوٹ بندی سے آتنک واد پر چوٹ اور نقلی نوٹوں پر لگام اور کالے دھن کی واپسی کا دعوی کیا تھا لیکن اب آر بی آئی کے اعدادو شمار کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ اس جگل بندی فرمان کا نتیجہ کیا نکلا؟ بھائیوبہنوں میں نے صرف دیش سے 50 دن مانگے ہیں، 30دسمبر تک مجھے موقعہ دیجئے۔ بھائیو بہنوں اگر 30 دسمبر کے بعد کوئی کمی رہ جائے ، کوئی میری غلطی نکل آئے، کوئی میرا غلط ارادہ نکل آئے تو آپ جس چوراہے پر مجھے کھڑا کریں گے ۔۔۔دیش جو سزا طے کرے گا وہ سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ یہ الفاظ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہیں۔ 8 نومبر 2016 کو رات 8 بجے نوٹ بندی کا اعلان کرکے 500 اور 1000 کے نوٹ کے چلن کو بند کرنے کے ٹھیک پانچ دن بعد گوا میں ایک ایئرپورٹ کے سنگ بنیاد پر نوٹ بندی کے بارے میں بول رہے تھے۔ لیکن ایک سال اور 9 مہینے بعد سوال یہ اٹھ رہے ہیں کیا مودی کی نوٹ بندی سے جڑے سبھی دعوؤں کی ہوا نکل گئی ہے؟ نوٹ بندی کو لاگو کرنے سے دیش کوکیا فائدہ ہوا یہ سوال عام لوگوں سے لیکر سیاسی گلیاروں میں گھوم رہا ہے لیکن حکمراں فریق کی طرف سے نوٹ بندی کی کامیابی کو لیکر کوئی دمدار دلیل اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ 8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے کئی فائدہ گنائے۔ اب ریزرو بینک نے نوٹ بندی کے دوران بینکنگ سسٹم میں واپس لوٹے نوٹوں کے بارے میں پوری جانکاری سامنے رکھ دی ہے۔ اس کے مطابق 500 اور 1000 کے 99.3 فیصدی نوٹ بینکوں میں لوٹ آئے ہیں۔ اس سے کالے دھن پر لگام لگنے کی بات سچ نہیں ثابت ہوئی۔ نوٹ بندی لاگو کئے جانے کے دو ہفتے بعد اس وقت کے اٹارنی جنرل مکل روہتکی نے سپریم کورٹ میں نوٹ بندی کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا تھا سرکار نے یہ قدم نارتھ ایسٹ اور کشمیر میں بھارت کے خلاف دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں استعمال ہورہے 4سے5 لاکھ کروڑ روپے تک کے چلن کو باہر کرنے کے لئے اٹھایا ہے۔ روہتکی سرکار کا موقف رکھ رہے تھے لیکن ان چار لاکھ سے پانچ لاکھ کروڑ روپے تک کے نوٹ بینکنگ سسٹم میں واپس آگئے۔ 2017 کو اپنی تقریر میں پی ایم مودی نے کہا تھا کہ تین لاکھ کروڑ روپے بینکنگ سسٹم میں نہیں آتے تھے وہ آئے ہیں ، کہ اس بیان کو یاد دلاتے ہوئے سابق وزیر مالیات پی چدمبرم نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے جھوٹ بولا تھا؟ جعلی نوٹوں کا چلن اب بھی بنا ہوا ہے۔ جعلی نوٹوں پر لگام پانے میں یہ سرکار بھی کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ ریزرو بینک کے مطابق 2017-18 کے دوران جعلی نوٹوں کے پکڑے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ نوٹ بندی کے اعلان کے بعد اپنی پہلی ’من کی بات‘ میں 27 نومبر2016 کو وزیر اعظم نے نوٹ بندی کو کیش لیس اکنومی کیلئے ضروری قدم بتایا تھا۔ لیکن نوٹ بندی کے دو سال بعد ریزرو بینک کے اعدادو شمار کے مطابق لوگوں کے پاس موجودہ وقت میں سب سے زیادہ نقدی ہے۔ کیش لیس معیشت کی سچائی تو یہ ہے کہ 9 دسمبر 2016 کو ریزرو بینک کے مطابق عام لوگوں کے پاس 7.8 لاکھ کروڑ روپے تھے جو جون 2018 تک بڑھ کر 18.5 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ موٹے طور پر عام لوگوں کے پاس نقدی نوٹ بندی کے وقت سے دوگنی ہوگئی ہے۔ نوٹ بندی کے اثر سے ہماری اقتصادی ترقی شرح بھی متاثر ہوئی ہے۔ 2015-16 کے دوران جی ڈی پی کی گروتھ ریٹ 8.01 فیصدی کے آس پاس تھی جو 2016-17 کے دوران 7.11 فیصدی رہ گئی اور اس کے بعد جی ڈی پی کی گروتھ ریٹ 6.1 فیصدی پر آگئی۔ اس کو لیکر مودی سرکار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے پی چدمبرم نے ٹوئٹ کیا ہندوستانی معیشت کو گروتھ کے ٹرم میں 1.5 فیصدی کا نقصان ہوا۔ اس سے ایک سال میں 2.5 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔100 سے زیادہ جانیں گئیں۔ اتنا ہی نہیں 15 کروڑ دیہاڑی مزدوروں کے کام دھندے بند ہوئے ہیں۔ ہزاروں صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ ایک لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں۔ ویسے نوٹ بندی کی وجہ کے چلتے 100 سے زیادہ لوگوں جن کی موت ہوئی ان کے خاندان تو نوٹ بندی کو شاید کبھی بھولیں۔ ریزرو بینک کے اعدادو شمار جاری کرنے سے پہلے مالی امور کی پارلیمانی قائمہ کمیٹی کی اس رپورٹ کو بھی بھاجپا نے کمیٹی کے اندر اپنی اکثریت کا استعمال کرتے ہوئے اسے باہر آنے نہیں دیا جس میں نوٹ بندی پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔سینٹر فار مانیٹرننگ انڈین اکانومی کے کنزیومر پیرا مینٹس سروس( سی پی ایس ایس) کے اعدادو شمار کے مطابق 2016-17 کی آخری سہ ماہی میں قریب 15 لاکھ نوکریاں گئی ہیں۔ ہندوستانی عوام پارٹی کی اتحادی تنظیم بھارتیہ مزدور فیڈریشن نے بھی نوٹ بندی پر یہ کہا ہے کہ غیر منظم سیکٹر کی ڈھائی لاکھ یونٹیں بند ہوگئی ہیں اور ریئل اسٹیٹ پر بہت برا اثر پڑا ہے۔بڑی تعداد میں لوگوں نے نوکریاں گنوائی ہیں۔ نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے دیش کے اندر نکسلیوں اور دیش سے باہر فنڈنگ پانے والے آتنکی حرکتوں پر نوٹ بندی سے لگام لگانے کا دعوی کیا تھا لیکن جس طرح سے حال ہی میں پانچ انسانی حقوق رضاکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے ان پر نکسلیوں سے تعلق رکھنے کے الزام لگے ہیں اور اربن نکسلیوں کی بات کو پھیلایا جارہا ہے اس سے تو یہ ہی سوال اٹھتا ہے کیا نوٹ بندی کے بعد بھی نکسل حمایتی اتنے مضبوط ہوگئے ہیں۔ نوٹ بندی سے جموں و کشمیر میں کٹر پسندی حملوں پر لگام لگانا تو دور کی بات یہ حملے اور تیز ہوگئے ہیں۔ راجیہ سبھا ایم پی نریش اگروال کے پوچھے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت داخلہ ہنسراج اہیر نے ایوان میں بتایا تھا کہ جنوری سے جولائی 2017 کے درمیان کشمیر میں 184 آتنکی حملے ہوئے جو 2016 میں اسی دوران ہوئے 155 آتنکی حملوں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھے۔ وزارت داخلہ کی 2017 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں 342 شدت پسند حملے ہوئے جو 2016 میں ہوئے 322 حملوں سے زیاد تھے۔ اتنا ہی نہیں 2016 میں جہاں صرف 15 لوگوں کی موت ہوئی تھی 2017 میں 40 عام لوگوں کی ان حملوں میں جان گئی۔ کشمیر میں آتنکی حملے 2018 کی شروعات سے ہی جاری ہیں۔ نوٹ بندی سے فائدے کے الٹ اسے لاگو کرنے میں ریزرو بینک کو ہزاروں کروڑ کا نقصان اٹھایا پڑا ہے۔ نئے نوٹوں کی پرنٹنگ کے لئے ریزرو بینک کو 7965 کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے۔ اس کے علاوہ نقدی کی قلت نہ ہو اس کے لئے زیادہ نوٹ بازار میں جاری کرنے کے چلتے 17426 کروڑ روپے کا سود بھی چکانا پڑا۔ بہرحال سابق وزیر اعظم اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 7 نومبر 2017 کو پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ایک ان آرگنائزڈ(غیر منظم) لوٹ ہے ۔ لیگالائزڈ بلنڈر (قانونی ڈاکہ ) ہے ۔ منموہن سنگھ کے اس الزام کا بھارت کی عوام نریندر مودی سے جواب کا ابھی بھی انتظار کررہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟