تھوک مہنگائی نے پچھلے چار سال کا ریکارڈ توڑا

ایک بار پھر سزیوں اور پٹرول اور ڈیز ل کی قیمتیں بڑ ھنے سے تھوک مہنگائی یعنی ڈبلیوٹی آئی پر مبنی افراط زر نہ صرف بڑھ گئی بالکل پچھلے چار سال میں سب سے زیادہ سطح پر پہنچ گئی ۔سرکاری اعجازوشمار کے مطابق اس مرتبہ جون میں یہ 5.77فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ یہ مئی میں 4.43فیصد تھی اور پچھلی جون میں یہ محض 0.90فیصد تھی ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ مہنگائی کس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور عام آدمی پر اس کی مار کیسے بڑھ رہی ہے ۔پچھلے ایک کے دوران بڑھی مہنگائی اور پھر ایک مہینے کے اندر مزید اضافہ ہوگیا ۔تھوک مہنگائی میں 22.62فیصدی کی حصہ داری رکھنے والی ابتدائی ضروری چیزوں کے دام میں جون میں 5.30فیصدی کی تیزی رہی ۔مئی میں یہ 3.16فیصدی پر تھی ۔ اس میں سبزیوں کی مہنگائی تین گنا بڑھی یعنی جون میں یہ 8.12فیصدی ہوگئی ۔جومئی میں 2.51فیصدی تھی ۔صارفین پر اس کا سیدھا اثر پڑ تا ہے ۔خردہ مہنگائی پر بھی اثر پڑیگا ۔جس سے بازار میں نقدی کا چلن متاثر ہوگا اس ماہ کے آخر میں ہونے والی ریزر وبینک کی کرنسی نظر ثانی میٹنگ میں ریپوریٹ بڑھانے پر بھی غور ہوسکتا ہے ۔پچھلی میٹنگ میں آربی آئی نے ریپوریٹ 0.25فیصدی بڑھادیا تھا ۔چوکانے والی بات یہ ہے تھوک مہنگائی میں یہ اضافہ سبزیوں اور ایندھن کے دام بڑھنے کا نتیجہ ہے ۔پچھلے کچھ مہینوں میں پٹرول او رڈیزل کے دام سارے ریکارڈ توڑ تے ہوئے نئی اونچائیا چھوگئے تھے ۔تبھی اس بات کے پختہ آثار نظر آنے لگے تھے اب مہنگائی کا گراف اوپر جائے گا ۔اس کا سیدھا اثر پھل سبزیوں اور دیگر غذائی اجناس پر تیزی سے پڑے گا ۔کچے تیل کے دام بڑھتے ہی پیٹرولیم مصنوعات میں ذرا بھی تیزی آتی ہے تو اس کا سب سے پہلا اثر مال ڈھلائی اور کرایہ پر پڑ تا ہے ۔اور اس کا بوجھ صارفین کی جیب پر پڑتا ہے ۔منڈیوں میں ایک دن میں دام چڑھ جاتے ہیں اس لئے مہنگائی تھوک ہو یا خردہ اثر دونوں کا ہی پڑ تا ہے ۔امید اچھے مانسون کو لیکر بھی ہے ۔اگر مانسو ن اچھا رہتا ہے تو کھیت لہراتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں افراط زر حالت میں بہتری آجائے لیکن فی الحال مہنگائی کو قابورکھنے اور غریب آدمی کی کمر توڑ نے والی اس مہنگائی کو تھامنا سرکار کے لئے ایک بڑی چنوتی ہے ۔ امید کی جاتی ہے آنے والے دنوں میں مہنگائی گھٹے گی اور جنتا کو راحت ملے گی ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟