تاج کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے تو اسے زمیں دوز کردیں
یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ دنیا بھر کے سیاحوں کو راغب کرنے والے تاج محل کی اتنی دردشا ہو، اس کی خستہ حالی اتنی ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑا کہ تاج کی حفاظت نہیں کرسکتے تو اسے بند کردیں یا زمیں دوز کردیں۔ لگتا ہے کہ متعلقہ محکموں کو تاج کی پرواہ نہیں۔ عدالت کی ناراضگی فطری ہے اس نے جو رائے زنی کی ہے وہ حکومت اور اے ایس آئی یعنی ہندوستانی آثار قدیمہ سروے محکمہ کے لئے شرمندگی کا سبب ہونا چاہئے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ دیش کی جو تاریخی وراثت دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتی ہے ، یونیسکو کی فہرست میں جسے دنیا کا دوسرا سب سے بہترین یادگار مانا گیا ہے، اس کے رکھ رکھاؤ کے سوال پر سرکار اور متعلقہ محکمہ اس قدر لاپرواہ ہیں کہ وقتاً فوقتاً سرکار اور متعلقہ محکموں کو آگاہ کیا گیا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اس لئے سپریم کورٹ کو اتنے سخت ریمارکس دینے پڑے ہیں۔ عدالت کا تبصرہ اپنے آپ میں یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ تاج محل کو لیکر حکومت اور اس کی دیکھ ریکھ کرنے والے اے ایس آئی نے کس سطح کی لاپرواہی برتی ہے۔ یہ بے وجہ نہیں لمبے عرصے سے اس کے تحفظ کے سوال پر ٹال مٹول کی وجہ سے تاج محل پر بڑھتا خطرہ آج سنگین ہوچکا ہے۔ جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے کہا کہ تاج محل کے تحفظ کے معاملہ میں سرکار امید کے برعکس کام کررہی ہے۔ تاج محل کی حفاظت کو لیکر پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے باوجود سرکار نے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ بنچ نے مرکزی سرکار سے پوچھا کہ تاج کے تحفظ کو لیکر اب تک کیا کوششیں کی گئیں اور کیا قدم اٹھائے جائیں گے عدالت نے کہا یوپی سرکار کو بھی تاج کی کوئی فکر نہیں لگتی ، تاج تحفظ پر یوپی سرکار کی حکمت عملی پلان مانگا گیا تھا لیکن اس نے اب تک عدالت کو نہیں دیا۔ تاج محل کے آس پاس ترقیاتی کاموں کی نگرانی بڑی عدالت کی نگرانی میں ہورہی ہے۔بہتر ہوگا مرکزی سرکار یہ سمجھے تاج اور دیگر یادگاروں کے تحفظ میں آثار قدیمہ محکمہ کی ناکامی بہت مہنگی ثابت ہورہی ہے۔ دیش محض انمول وراثت کو نہیں کھو رہا ہے بلکہ غیر ملکی کرنسی سے بھی محروم ہورہا ہے۔ پیرس میں ایفل ٹاور کو دیکھنے کیلئے 8 کروڑ لوگ پہنچتے ہیں۔ تاج محل کو دیکھنے آنے والوں کی تعداد تقریباً 50 لاکھ ہی ہے جبکہ آثار قدیمہ سے لیکر اس کی اہمیت کے لحاظ سے تاج محل کو ایفل ٹاور سے کہیں زیادہ اہم ترین درجہ حاصل ہے۔ آج اگر تاج کی یہ حالت ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں