دہلی کے سپرمین

دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اختیارات کی جنگ میں دہلی کی تباہی تو ہورہی ہے کوڑے کے پہاڑ بنتے جارہے ہیں اور انہیں ہٹانے کے لئے کوئی ذمہ دار نہیں۔ تمام اختیارات سے آراستہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ابھی تک نہ تو اس کچرے کے نپٹارے کی کوئی ٹھوس مستقبل اسکیم بنائی ہے اور نہ ہی کوئی قدم اٹھایا ہے۔ سپریم کورٹ نے کوڑے کے نپٹان میں ناکام رہنے پر دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے رویئے پر سخت پھٹکار لگاتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ پاور کے معاملہ میں لیفٹیننٹ گورنر خود کو سپر مین سمجھتے ہیں لیکن شہر سے کوڑے کے پہاڑ صاف کرنے کے لئے کچھ نہیں کررہے ہیں۔ ایک کوڑے کے ڈھیر کی اونچائی تو تقریباً قطب مینار کے برابر پہنچ گئی ہے۔ عدالت نے کہا پچھلی سماعت پر کوڑے کا پہاڑ 62 میٹر اونچا تھا اب یہ 65 میٹر ہوگیا ہے۔ یہ قطب مینار سے صرف 8 میٹر کم ہے۔ دہلی سرکار کے حلف نامہ میں کہا گیا ہے کوڑے کے نپٹانے کو لیکر ہو رہی میٹنگ میں لیفٹیننٹ گورنر شامل نہیں ہوتے۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا جب آپ کے پاس کام آتاہے تو آپ دوسروں پر ذمہ داری ڈال دیتے ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر مانتے ہیں کہ ان کے پاس پاور ہے وہ سپر مین ہیں، سب کچھ وہی ہیں تو میٹنگ میں کیوں نہی جاتے؟ کوڑا نپٹانے کی ذمہ داری کون لے گا؟ سارے اختیار آپ کے پاس ہیں تو ذمہ داری بھی آپ کی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا کیونکہ آپ آئینی عہدہ پر بیٹھے ہیں۔ عدالت نے16 جولائی تک لیفٹیننٹ گورنر سے حلف نامہ دائر کرکے یہ بتانے کو کہا ہے کہ کوڑا نپٹانے کا کام کب تک پورا ہوگا؟ ایکشن پلان کیا ہے اور ابھی تک کیا کیا ہے؟ غازی پور، اوکھلا اور بھلسوا تینوں ہی لینڈ فل جگہوں پر اکٹھے کچرے کے نپٹارے کی ذمہ داری ہماری رائے میں یقینی طور پر دہلی کی تینوں کارپوریشنوں کی ہے۔ یہ مقامی بلدیاتی ادارہ اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ اسے لیکر لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے کئی میٹنگیں کئے جانے کے باوجود مسئلہ کا حل نہ نکل پانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس مسئلہ کو لیکر کتنے سنجیدہ ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے یہاں ہر سطح پر قوت ارادی کی کمی ہے۔ ان لینڈ فل جگہوں پر آگ لگنے کی بھی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ یہ کوڑے کا پہاڑ جہاں صحت کے لئے نقصاندہ ہے وہیں یہ آب و ہوا کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان لینڈ فل جگہوں میں اکٹھے ٹھوس کچرے کے ازالے کے لئے مناسب انتظام کیا جائے اور مستقبل میں اس کے نپٹارے کی کوئی ٹھوس پالیسی بنائی جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!