آسام کی پہلی ٹرانسجینڈر جج

ٹرانسجینڈر کو جج بنانے والا آسام نارتھ ایسٹ کی پہلی دیش میں تیسری ریاست بن گیا ہے۔ گواہاٹی کے کام روپ ضلع کی لوک عدالت نے سواتھی بدھان بروا نے کام کاج سنبھالا۔ عدالت کی 20 ججوں کی بنچ میں سواتھی ایک ہیں۔ 2012 تک وہ مرد تھیں، نام تھابدھان۔ اس کے بعد سرجری کرائی اور نیا نام سواتھی اپنایا۔ بی ۔ کام کے بعد قانون کی پڑھائی کی اور اب عدالت میں پیسے کے لین دین سے جڑے معاملے دیکھ رہی ہیں۔ سب سے پہلے مغربی بنگال نے جولائی 2017 میں دیش کے پہلے ٹرانسجینڈر جج کی شکل میں جایتامنڈل کو مقرر کیا تھا۔ اس کے بعد اس سال فروری میں مہاراشٹر میں ناگ چھاتر بال کو نند پور کی لوک سبھا عدالت میں مقرر کیا گیا۔ ٹرانسجینڈر ایکٹویٹ سواتھی بروا کے یہاں تک پہنچنے کی کہانی دلچسپ ہے۔2012 میں سواتھی (تب بدھان) نے نئی پہچان اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے لئے سرجری کروانے کی ٹھانی تو ان کا خاندان بھی احتجاج میں آگیا۔سواتھی ممبئی میں نوکری کررہی تھی ، پریوار نے انہیں زبردست گواہاٹی واپس بلا لیا۔ نوکری کرکے انہوں نے سرجری کے لئے پیسے اکھٹے کئے۔ سرجری نہ ہوپائے اس لئے خاندان نے ان کے بینک اکاؤنٹ بلاک کروا دئے۔ اس کے بعد بروا بمبئی ہائی کورٹ پہنچیں، وہاں عدالت نے ان کے سرجری کروانے کا راستہ صاف کردیا۔ اس کے بعد بدھان نے سواتھی کی شکل میں نئی پہچان اپنائی۔ اب سواتھی کے خاندان کو بھی ان سے کوئی گلا نہیں رہا۔ وہ کہتی ہیں مجھے امید ہے کہ بطور جج میری تقرری لوگوں کو احساس کرائے گی کہ ٹرانسجینڈر بھی سماج کا حصہ ہیں۔ کچھ پالیسیوں کے ناکام ہونے کی وجہ سے ہی انہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ورنہ ٹرانسجینڈر بھی سماج کے لئے کام کرسکتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق آسام میں پانچ ہزار سے زیادہ ٹرانسجینڈر ہیں ۔ اسی کو دیکھتے ہوئے سواتھی نے2017 میں گواہاٹی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی۔ انہوں نے ٹرانسجینڈر کے لئے سرکار کو پالیسی بنانے کا حکم دینے کی مانگ کی تھی۔ بروا آل اسم ٹرانسجینڈر کی لیڈر بھی ہیں، وہ کہتی ہیں ٹرانسجینڈر پبلک مقامات پر پریشانی کا سامنا کرتے ہیں، انہیں بے عزت کیا جاتا ہے، طنز کسے جاتے ہیں، اسے روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ اپنے مشن کو تب پورا مانوں گی جب یہ دکھائی دے گا کہ ٹرانسجینڈر کو امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں بھی پکی نوکریاں مل رہی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟