کبھی کھیتوں میں دوڑتی تھی ،جوتے تک نہیں تھے اور گولڈ جیتا

کبھی ورلڈ کپ فٹبال میں زیادہ راغب ہونے کے سبب ایتھلیٹ ہما داس کی تاریخی جیت دب گئی ۔لیکن اس نے بھارت کا پرچم اونچا کردیا ۔فینڈ لینڈ میں آئی اے ایف ورلڈ انڈر ۔20ایتھلیٹوں چیمپین میں ہماداس نے 400میٹر کی دور جیت لی ہے ۔ہماداس گولڈ میڈل جیتی ہے عالمی سطح پر ٹریک مقابلے میں گولڈ میڈل جیتنی والی ہندوستانی پہلی کھلاڑی ہیں ۔ اس سے پہلے بھارت کی کسی بھی خاتون یا مرد کھلاڑی نے جونےئر یا سینئر نے کسی بھی سطح پر عالمی مقابلوں میں گولڈ میڈ ل نہیں جیتا اس طر ح ہما داس کا کارنامے ان تمام کھلاڑیوں پر بھاری ہے جن کے نام دہائیوں پر غور کریں تو ہم تھوڑی بہت تشفی کرسکتے ہیں ۔لیکن چاہے وہ فلائنگ ملکھاسنگھ ہو یا پی ٹی اوشا میدان ٹریک ایوینٹ میں دیش میں پہلی مرتبہ سونے کا تمغہ دلاکر تاریخ بنانے والی ہماداس کی کہانی کسی فلمی اسٹو ری سے کم نہیں ہے ۔18سال کی ہماداس نے محض دوسال پہلے ہی ریسنگ ٹریک پر قدم رکھا تھا ۔اس سے پہلے انھیں اچھے جوتے بھی نصیب نہیں تھے ۔آسام کے چھوٹے سے گاؤ ں کی یہ لڑکی خاندان میں بچوں میں سب سے چھوٹی تھی ہما پہلے لڑکوں کے ساتھ والد کے دھان کے کھیتوں میں فٹبال کھیلا کرتی تھی ۔مقامی کوچ نے ایتھلیٹکس میں ہاتھ آزمانے کی صلاح دی ۔پیسوں کی کمی ایسی تھی کہ ہما کے پاس اچھے جوتے تک نہیں تھے ۔سستے جوتے پہن کر جب ہما نے ضلع ریس مقابلہ جیتا تو کوچ نپن داس بھی حیران رہ گئے ۔ وہ ہما کو گوہاٹی لے آئے اور انھیں انٹر نیشنل اسٹنڈر ڈجوتے پہننے کو ملے ۔ اس کے بعد ہمانے پیچھے موڑ کر نہیں دیکھا ۔400میٹر ریس میں گولڈ میڈ ل یافتہ لڑکی ریس میں خا ص بات یہ تھی کہ اس دوڑ کو 35ویں سیکنڈ تک ٹاپ تھری میں نہیں پہنچی تھی۔
لیکن آخری کچھ لمحوں میں ہما نے ایسی رفتا ر پکڑ ی کے سبھی کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ہندوستانی قومی ترانہ بجا تو ہما کے آنکھوں میں آنسو تھے ۔اس جیت پر ان کے گاؤں میں میٹھائیاں بانٹی گئیں اور ان کے گھر والوں کو مبارکباد دینے والوں کا سلسلہ بڑھتا چلاگیا ۔اپنی کارکردگی کے بارے میں ہما نے کہا کہ میں میڈ ل کے بارے میں سوچ کر ٹریک پر نہیں اتری تھی میں صرف تیز دوڑ نے میں ہی مگن تھی اور مجھے لگتا ہے کہ اسی توجہ میں میڈل جیتنے میں کامیاب رہی ۔میں نے ابھی کوئی ٹارگیٹ مقر رکیا ہے ۔جیسے کی ایشیائی یا اولمپک کھیلوں میں میڈ ل جیتنا میں ابھی صرف اس سے خوش ہوں کہ میں نے کچھ خاص حاصل کیا ہے او راپنے دیش کا وقار بڑھایا ہے ۔ہماداس کی اس تاریخی جیت پر ہم مبارکبارکباددیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی وہاں ایسی ہی دیش کی شان بڑ ھائیں گی 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟