تشدد کے سہارے چناؤ جیتنا

مغربی بنگال میں پیر کو پنچایت چناؤ کیلئے پولنگ کا دن تھا۔ پولنگ کے دوران بڑے پیمانے پر تشدد میں کم سے کم 18 لوگوں کی موت ہوگئی،50 لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ اموات مغربی بنگال کے 8 ضلعوں میں ہوئی ہیں۔ چناؤ کے لئے سخت حفاظتی انتظامات کا دعوی کیا جارہا تھا پھر بھی اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی موتیں بیحد افسوسناک اور شرمناک ہیں۔ بوتھ پر قبضے، آگ زنی، بم پھینکنے، دھمکی دینے اور مار پیٹ کے کتنے واقعات ہوئے اس کا پورا حساب دینا پانا فی الحال مشکل ہے۔ چناؤ پر امن اور منصفانہ بغیر کسی خوف یا دباؤ کے ہونے چاہئیں لیکن ان میں سے کسی بھی کسوٹی پر چناؤ کھرے نہیں اترتے۔ یہ ہی نہیں یہ چناؤ قانون و انتظام کی ناکامی بھی بیان کرتے ہیں۔ اس تشدد سے یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ اس ریاست میں جمہوریت کے نام پر کس طرح کی جمہوری اقدار و مریاداؤں کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ تشویش کا موضوع یہ ہے کہ اس کے پورے آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ پنچایت چناؤ میں پولنگ خانہ پوری کو روکنے کے لئے تشدد کا سہارا لیا جاسکتا ہے لیکن نہ تو ممتا بنرجی کی ریاستی حکومت نے اسے روکنے میں کوئی دلچسپی دکھائی اور نہ ہی ریاستی چناؤ کمیشن نے اسے روکنے کے لئے مناسب انتظامات کئے۔ مغربی بنگال میں چناؤ کے دوران تشدد کی تاریخ رہی ہے۔ امید کی جاتی تھی کہ ریاستی سرکار چناؤ کمیشن کے ساتھ مل کر منصفانہ آزادانہ چناؤکا انتظام کرے گی لیکن اس کام میں ریاستی سرکار ناکام رہی ہے۔ ریاستی سرکار ایسے وقت میں مرکزی فورس مانگ لیتی ہے لیکن سیاسی اسباب کے چلتے ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس سرکار میں مرکزی فورسز مانگنے کے بجائے ان کے تئیں اپنی بے اعتمادی ظاہر کرنے کے لئے خاص طور سے غیر بھاجپا حکمراں ریاستوں سے پولیس فورس پر زیادہ بھروسہ کیا اور مانگے بھی کتنے دو ہزار۔ یہ محض دکھاوا تھا۔ تشدد کے تازہ واقعات پر مارکسوادی پارٹی ، کانگریس اور بھاجپا یعنی اپوزیشن سبھی پارٹیوں نے تلخ ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ترنمول کاخوف قراردیا ہے۔ اس کے پلٹ وار ترنمول نے کہا پنچایت چناؤ میں تشدد کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن لیفٹ مورچہ کے راج میں اس سے بھی زیادہ ہوئے، سوال یہ ہے کیا پہلے اعدادو شمار کا حوالہ دیکر ریاستی سرکار حکمراں پارٹی اپنی جوابدہی سے پلہ جھاڑ سکتی ہے؟ یہ صحیح ہے کہ مغربی بنگال میں پنچایت چناؤ کے دوران تشدد کی پرانی تاریخ رہی ہے اور اس پارٹی کی سرکار ہوتی ہے وہاں اپوزیشن کے ورکروں کو اسے دھمکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوتی ہے۔ جس طرح شرپسند عناصر بے خوف تھے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں تشدد کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے چناوی تشدد میں اتنے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ اس طرح چناؤ جیتنا کیا جمہوریت میں جائز ہے؟ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟