ایران نیوکلیائی سمجھوتہ سے ٹرمپ کا پیچھے ہٹنا

ایران کے ساتھ 2015 میں ہوئے اہم ترین اور کثیر ملکی معاہدہ سے باہر نکل آنے کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ کوئی غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ اپنی چناؤ کمپین کے دوران انہوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ایران کو نیوکلیائی بم بنانے سے روکنے کے لئے جو معاہدہ کیا تھا اس سے وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اوبامہ کے وقت سے اس سمجھوتہ کو ٹرمپ پہلے ہی کئی بار نکتہ چینی کرکے اٹکا چکے ہیں۔ ایران نیوکلیائی سمجھوتے سے امریکہ کے پیچھے ہٹنے کی چوطرفہ نکتہ چینی ہورہی ہے۔ اس ڈیل میں شامل دیگر پانچ ممالک برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی نے سخت اعتراض کیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتہ میں کئی خامیاں ہیں اور یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس سے ایران کو جو پیسہ ملا اسے وہ نیوکلیائی ہتھیار حاصل کرنے سے نہیں روک سکا۔ یہ سمجھوتہ 2015 میں اس وقت کے امریکی صر براک اوبامہ کی قیادت میں ہوا تھا۔ اوبامہ نے ٹوئٹ کر اسے ٹرمپ انتظامیہ کا غلط فیصلہ قراردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھوتہ صرف ان کی سرکار اور ایران کے درمیان نہیں تھا بلکہ بین الاقوامی مبصرین و آئینی ماہرین کی صلاح کی بنیاد پر اس میں دنیا کی بڑی طاقتیں شامل ہوئی تھیں۔ اس طرح کے فیصلوں سے امریکہ کی ساکھ کم ہوگی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ اختلافات بڑھیں گے، جو کسی کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔ اس معاہدے پر سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبر امریکہ، برطانیہ، فرانس ، چین اور روس نے دستخط کئے تھے اس میں جرمنی بھی شامل تھا۔اس سمجھوتہ کو 5+1 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت ایران نیوکلیائی پروگرام کے بڑے حصہ کو بند کرنے اور بین الاقوامی نگرانی کیلئے راضی ہوگیا تھا۔ قریب ڈیڑھ دہائی تک ایران کے ساتھ کشیدہ رشتوں اور بات چیت کے کئی دور کے بعد یہ معاہدہ ہو پایا تھا۔ ٹرمپ نے ایران کو کٹر پسند دیش بتاتے ہوئے شام میں جنگ بڑھکانے کا الزام لگایا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران سمجھوتہ کی تعمیل نہیں کررہا ہے۔ حالانکہ برطانیہ ، فرانس ، روس اور چین نے امریکہ کے اس قدم پر عدم اتفاق ظاہر کیا ہے اور ایران کے ساتھ ہوئے معاہدہ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ وہ اپنے وزیر خارجہ کو سمجھوتے میں شامل دیگر دیشوں کے ساتھ بات چیت کے لئے بھیج رہے ہیں۔ انہوں نے خبر دار کیا کہ بات چیت ناکام ہونے کی صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس فیصلہ کے بعد بھی بھارت ایران کے ساتھ ہے۔ بھارت نے کہا کہ اس مسئلہ پر بین الاقوامی برادری کے جذبات کا دھیان رکھتے ہوئے اسے طے سمجھوتہ کے تحت چلنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟