نتیجوں کے بعدراج بھون پر سب کی نظریں لگیں

کرناٹک اسمبلی چناؤ پر دیش بھر کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔224 ممبر اسمبلی کی 222 سیٹوں پر سنیچر کو پولنگ ہوئی تھی۔ پولنگ کے بعد مختلف چینلوں کے ایگزٹ پول میں معلق اسمبلی کی پیشینگوئی صحیح ثابت ہوئی ہے۔ ایگزٹ پول کی بات کریں تو پانچ چینلوں کے پول میں بھاجپا اور چار میں کانگریس کو سب سے بڑی پارٹی کے طور پر دکھایاگیا تھا۔ حالانکہ دو چینلوں پر تو بھاجپا اور کانگریس کو اکثریت ملنے کا اندازہ ظاہر کیا گیا تھا۔ نتائج میں وہ چار ایگزٹ پول تو اس حد تک صحیح ثابت ہوئے جنہوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ بھاجپا سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی، یہ بھی صحیح رہا کہ معلق اسمبلی ہوگی۔ آخری نتیجے کچھ اس طرح رہے بھاجپا 104 (46.4 فیصد)، کانگریس 78 (34.8 فیصد)، جے ڈی ایس 37 ۔ یہ بھی صحیح رہا کہ جے ڈی ایس کنگ میکر کے رول میں رہے گی۔ معلق اسمبلی کے حالات سامنے آنے کے بعد بھاجپا اور کانگریس جے ڈی ایس اتحاد دونوں نے سرکار بنانے کا دعوی پیش کردیا ہے۔ ریاست میں امکانی سرکار کو لیکر شش و پنج کی صورتحال بنی ہوئی ہے اور جوڑ توڑ کی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ اب ساری نظریں گورنر وجو بھائی والا پر ٹک گئی ہیں۔ انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سرکار بنانے کے لئے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری بھاجپا کو مدعوکریں یا کانگریس جے ڈی ایس اتحاد کو۔ ہندوستانی سیاست میں ہمیشہ بولی کی مریادہ کا خیال رکھا گیا ہے لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اس چناؤ میں مریادہ ٹوٹ گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور دیگر نیتاؤں نے صدر کووند کو خط لکھ کر وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان پر اعتراض جتایا ہے۔ کرناٹک چناؤ ڈاکٹر سنگھ کے مطابق وزیر اعظم کانگریس کو دھمکانے کا کام کررہے ہیں۔ دراصل کرناٹک کے ہبلی میں 6 مئی کو چناؤ کمپین کے دوران پی ایم مودی نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کانگریس کے نیتا کان کھول کر سن لیں اگر حدوں کو پار کریں گے تو یہ موی ہے، لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کانگریس نے اس تقریر کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے قابل اعتراض بتایا اور صدر سے پی ایم کو وارننگ جاری کرنے کے لئے کہا۔ کانگریس نے آگے لکھا ہے کہ یہ سوچنا مشکل ہے کہ ہمارے جیسے جمہوری دیش میں پی ایم کے عہدہ پر بیٹھا کوئی شخص اس طرح کی ڈرانے والی زبان کا استعمال کرے۔اس چناؤ میں ایک نیا ریکارڈ بھی بنا ہے ،وہ ہے یہ چناؤ اب تک کا سب سے مہنگا چناؤ رہا۔ سروے سینٹرفار میڈیا اسٹڈیز نے دعوی کیا ہے کہ یہ سینٹر خود کا اپنی ویب سائٹ پر ایک غیر سرکاری تنظیم اور تھنک ٹینک بتاتا ہے۔ اس کے ذریعے کئے گئے سروے میں کرناٹک میں چناؤ کو دھن پینے والا بتایا ہے۔ سی ایم ایس کے مطابق مختلف سیاسی پارٹیوں اور ان کے امیدواروں کے ذریعے چناؤ میں 9500 سے 10500 کروڑ روپے کے درمیان پیسہ خرچ کیا گیا۔ یہ خرچہ ریاست میں منعقدہ اسمبلی چناؤ کے خرچ سے دوگنا ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ اس میں وزیر اعظم کی کمپین میں ہوا خرچ شامل نہیں ہے۔ سی ایم ایس کے این بھاسکر راؤ نے خرچ کی شرح اگر یہ رہی تو 2019 کے لوک سبھا چناؤ میں 50 ہزار کروڑ سے 60 ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس چناؤ کے لئے بڑی محنت اور مشقت کی حالانکہ کرناٹک کی اترپردیش سے آدھی سیٹیں ہیں، آبادی بھی ایک تہائی ہے لیکن مودی نے طاقت برابر لگائی۔ پی ایم نے 21 ریلیاں کیں، دو بار نمو ایپ سے مخاطب ہوئے، قریب 20 ہزار کلو میٹر کی دوری طے کی۔ مودی کرناٹک میں ایک بھی دھارمک استھل پر نہیں گئے۔ ان کے مقابلے میں کانگریس صدر راہل گاندھی نے 20 ریلیاں کیں اور 40 روڈ شو اور نکڑ سبھائیں کیں۔ راہل نے مودی سے دو گنا دوری طے کی۔ 55 ہزار کلو میٹر کا دورہ کیا۔ کانگریس کی بات کریں تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس بار اسے یہ احساس ہوگیا تھا کہ اسے اکثریت نہیں ملنے والی ہے اور معلق اسمبلی ہوگی اس لئے کانگریس کے وزیر اعلی سدارمیا نے پولنگ سے پہلے ہی دلت کارڈ کھیلا۔ کانگریس گوا کی غلطی دوہرانے کو تیار نہیں تھی اور اس سے پارٹی ہائی کمان کو بھی سبق ملا۔ جیسے ہی نتیجے آئے سونیا گاندھی نے پارٹی لیڈروں کو حکم دیا کہ وہ کمار سوامی سے جاکر ملیں اور ان سے کہیں کانگریس وزیر اعلی عہدے کے لئے انہیں حمایت دینے کو تیارہے۔ یہ سیاست کے لحاظ سے ایک بڑا داؤ رہا۔ اب کم سے کم کانگریس ۔ جے ڈی ایس سرکار بنانے کی ریس میں شامل تو ہے۔ کانگریس اور بھاجپا دونوں کے لئے یہ چناؤ بہت اہم ترین تھے۔ یہ لڑائی کانگریس کے وجودکی اور بھاجپا کے لئے 2019 کے چناؤ کی سمت میں ایک اہم ترین قدم تھا۔ بومئی بنام مرکزی سرکار کے ایک اہم معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ ہدایت دی تھی کہ اکثریت کا فیصلہ ودھان منڈل کے اندر ہوگا نہ کے راج نواس میں ۔ اگر گورنر بھاجپا کو سرکا ر بنانے کے لئے مدعو کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اسے جے ڈی ایس کی حمایت چاہئے۔ ایسے میں ممبران کی خریدو فروخت کے اندیشات سے انکار نہیں کیا جاسکتا البتہ خریدو فروخت کو روکنے کے لئے اور سیاست میں پاکیزگی قائم کرنے کے لئے کانگریس ۔ جے ڈی ایس اتحاد کو سرکار بنانے کے لئے مدعوکرنا چاہئے تو بہتر ہوگا۔ دیکھیں گورنر موصوف کیا فیصلہ کرتے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟