جنرل راوت کی پتھربازوں کو وارننگ

کشمیر وادی میں پتھر بازی کے بڑھتے واقعات اور دہشت گردی بڑھنے کے اشاروں کے درمیان فوج کے سربراہ جنرل وپن راوت نے شرپسندوں کو سخت پیغام دیا ہے۔ جنرل راوت نے صاف کردیا ہے کہ انہیں آزادی کبھی نہیں ملنے والی۔ اس کے لئے ہتھیار اٹھانے والوں سے ہم سختی سے نمٹیں گے۔ جموں و کشمیر میں غیرمستحکم حالات پر ان کا سب سے سخت بیان ہے۔ انہوں نے سیدھا حملہ آزادی پربولا ہے۔ جس کے نام پر ان نوجوانوں کو بھڑکایا جارہا ہے۔ اس لئے جنرل راوت کہتے ہیں کہ یہ آزادی انہیں ملنے والی نہیں ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وادی میں جس طرح کی آزادی کے سپنے دکھائے جارہے ہیں وہ بے مطلب تو ہے ہیں ساتھ غیر ضروری بھی ہیں۔ یہ سرحد پار سے آئی ایک چنوتی ہے جسے نوجوانوں کی شکل میں ہندوستانی فوج کے سامنے کھڑا کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے اس کا جواب ہندوستانی فوج کو ہی دینا ہے اور وہ معقول جواب دے رہی ہے۔ جنرل راوت نے صاف کیا کہ فوج کا برتاؤ کبھی بھی بربریت آمیز نہیں رہا۔ ایسی صورت میں شام و پاکستان میں ٹینک اور ہوائی حملوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جنرل راوت کے بیان کی تصدیق لشکرطیبہ کے آتنکی اعجاز گجری کے ویڈیو سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں اس نے مانا ہے کہ وہ جھاڑیوں میں چھپا تھا جہاں فوج اسے مارسکتی تھی لیکن اس نے اسے قیدی بنا کر اس کی جان بچھائی ہے۔ اس نے کہا کہ فوج نے مجھے نہیں زندگی دی ہے۔ گجری نے غلط راستے پر چل رہے اپنے ساتھیوں کو بھی ہتھیار چھوڑ کر بہتر زندگی جینے کی اپیل کی ہے۔ پاکستانی کرتوت کا بھی پردہ فاش کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ جس دن وہ پکڑا گیا تھا اسی دن پاکستان سے دہشت گردوں کو ہدایت ملی تھی کہ بھارتیہ فوج بربریت کررہی ہے اس لئے وہ شر پھیلائیں۔ وادی میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا دہشت گرد گروپوں میں شامل ہونا بھی پاکستانی سازش کا ہی اشارہ ہے۔ جنرل راوت نے ریاست کی محبوبہ مفتی سرکار کو بھی پیغام دیا ہے جو عید اور امرناتھ یاترا کا حوالہ دیکر پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف کارروائی روکنے پر زور دے رہی ہیں۔ فوج اور سکیورٹی فورس کشمیر میں ہمیشہ سے ہی اپنااچھا رول نبھاتی رہی ہیں۔ وہاں اعتراض دراصل سیاسی پارٹیوں سے زیادہ ہے۔ حریت کانفرنس جیسی علیحدگی پسند تنظیموں سے ملی ہوئی ہیں جو اپنے رول کو صحیح ڈھنگ سے نہیں نبھا پاتی۔ کشمیری نوجوانوں کا قومی دھارا میں شامل کرنے کا اشو ہمیشہ ہی سیاست کی بھینٹ چڑھا ہے۔ مسئلہ کا حل سیاسی پارٹی بھی ایک بڑا رول نبھا سکتی ہے لیکن ان کو انجام دینے میں ریاست کی سیاست ناکام رہی ہے اس لئے نوجوانوں کو سمجھانے کا کام بھی بری فوج کے چیف کو ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم جنرل راوت کے بیان سے پوری طرح متفق ہیں اور بہادر جوانوں کو انتہائی مشکل حالات سے نمٹنے کے لئے سلام کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟