پی ایم سے لیکر دیوتاؤں پر تبصرہ کرنے والا نریش اگروال

بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں بنے رہنے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے کسی کو بھی پارٹی میں شامل کرسکتی ہے۔ ہم نے اٹل جی ، اڈوانی جی کا دور بھی دیکھا ہے جہاں ایک ووٹ کم رہنے پر اٹل جی نے اقتدار چھوڑدیا تھا۔ اب پارٹی کو اقتدار کی اتنی بھوک ہوگئی ہے کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتی کونسے نیتا پارٹی میں شامل ہورہے ہیں اس کی تاریخ اور برتاؤ کیا رہا ہے؟ میں بات کررہا ہوں اپنے بے تکے، بکواس بیان دینے والے نیتا نریش اگروال کی۔ ہوا کا رخ بھانپ کر سیاسی ڈگر تیارکرنے والے نریش اگروال نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔کانگریس سے سیاسی سفر شروع کرکے لوک تانترک کانگریس، سپا و بسپا میں اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد اب وہ بھاجپا کی پناہ میں آگئے ہیں۔ متنازعہ بیانات سے سرخیوں میں رہنے والے نریش اگروال چند دن پہلے تک پانی پی پی کر بھاجپا و اس کے سینئر لیڈروں کو کوس رہے تھے۔ پی ایم مودی سے لیکر ہندو دیوی دیوتاؤں کو گالی دینے والے کو آخر بھاجپا نے کیوں شامل کیا؟ وزیر اعظم نریندر مودی کے شادی نہ کرنے پر چٹکی لیتے ہوئے نریش اگروال نے کہا تھا انہوں نے شادی تو نہیں کی ، وہ پریوار کا مطلب کیا جانیں گے۔ وہیں لکھنؤ میں وشیہ سماج کے جلسہ میں مودی کے لئے نیچ لفظ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں وشیہ سماج کا حصہ ماننے سے انکا کردیا تھا۔ نیتاؤں کوتو چھوڑیئے نریش اگروال نے تو ہندو دیوی دیوتاؤں کو بھی نہیں بخشا، انہوں نے راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ وسکی میں وشنو بسے رم میں شری رام، جن میں ماتا جانکی اورٹھرے میں ہنومان۔ ’سیاور رام چندر کی جے‘۔ بھگوان کا موازنہ وسکی و رم سے کرنے والے اور بھاجپا آئی ٹی سیل کے ذریعے چند دن پہلے ہی پاکستانی ترجمان قرار دئے گئے سابق ایم پی نریش اگروال کو بھاجپا میں شامل کرنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ سپا سے اپنا ٹکٹ کٹنے سے ناراض نریش اگروال نے بھاجپا میں شامل ہوتے ہی اپنی عادت کے مطابق متنازع بیان دے ڈالا۔ نریش نے کہا فلم میں کام کرنے والوں سے ان کا موازنہ کیا جارہا ہے۔ فلم میں ڈانس کرنے والوں کے نام پر ان کا ٹکٹ کاٹا گیا ہے۔ حالانکہ اس بیان پر سشما سوراج نے نکتہ چینی کی ہے۔ ظاہر ہے نریش اگروال جیہ بچن کی بات کررہے تھے۔ اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ انہیں بھاجپا کی پالیسی اور رواج سے کوئی مطلب نہیں۔ یہ وہی نریش اگروال ہیں جنہوں نے سابق بحریہ کے افسر کلبھوشن جھادو کے معاملہ میں کہا تھا کہ اگرپاکستان نے کلبھوشن جھادو کو اپنے دیش میں آتنک وادی مانا ہے تو وہ اسی حساب سے جھادو برتاؤ کریں گے۔ ہمارے دیش میں بھی آتنک وادیوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرنا چاہئے۔ یہ وہی نریش اگروال ہیں جنہوں نے یوپی کے بدایوں میں ہوئے اجتماعی آبروریزی معاملہ پر کہا تھا کہ آپ ایک بگھیا کو بھی زبردستی گھسیٹ کر نہیں لے جاسکتے۔ پتہ نہیں کہ اترپردیش جوبھاجپا کا گڑھ بن چکا ہے وہاں کے اس بددماغ ،بدزبان لیڈرکو کیوں لیا گیا؟ ایسے لوگوں سے پارٹی کی ساکھ بگڑتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو آپ کے دیوی دیوتاؤں کو گالی دے، وزیراعظم کو گالی دے وہ بھی پارٹی میں اقتدار کی خاطر قابل قبول ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!