دیش کا ان داتا خودکشی کرنے پر مجبور

یہ تشفی کی بات ہے کہ دیش کی توجہ ان 40 ہزار کسانوں کی طرف جارہی ہے جو مہاراشٹر کے ناسک شہر سے 160 کلو میٹر پیدل مارچ کرکے ممبئی پہنچتے ہیں اور مہاراشٹر سرکار کو ان کی مانگوں کو ماننے پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ مہاراشٹر کی دیویندر فڑنویس سرکار کو شاید امید نہیں تھی کہ جس کسان طبقہ کی مانگوں کو وہ ہلکے سے لیتے رہے ہیں آج اسی کسان طبقہ نے سرکار کی نیند حرام کرتے ہوئے ممبئی کوچ کیا۔ ناسک ذرعی مصنوعات کی بہت بڑی منڈی ہے۔ ممبئی دیش کی اقتصادی راجدھانی ہے اگر اس کے درمیان کسان دکھی اور ناراض ہے توہمارے سسٹم میں کہیں گڑبڑ ضرور ہے۔ پچھلے سال مدھیہ پردیش کے مندسور، رتلام اور اندور سے لیکر بھوپال تک کسانوں نے مشتعل مظاہرہ کیا تھا۔ اتفاق سے اس تحریک کی قیادت آر ایس ایس کے ہی ایک کسان لیڈر کررہے تھے۔ اس تحریک کی قیادت اس وقت اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے ہاتھ میں ہے اور وہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی والی شاخ ہے اس کے باوجود اسے کانگریس مہاراشٹر نو نرمان سینا اور شیو سینا کی حمایت حاصل ہے۔ مارچ 2017 میں کسانوں نے سرکار سے موٹے طور پر قرض معافی ، فصلوں کے مناسب دام، بجلی کے دام کم کرنے اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش لاگو کرنے کی مانگ کی تھی۔ تب ان مانگوں کے لئے وزیر اعلی فڑنویس ناسک گئے تھے۔ جون 2017 میں مہاراشٹر حکومت نے 34 ہزار کروڑ روپے کی قرض معافی کا اعلان کر تودیا لیکن یہ محض دکھاوا بنا رہا۔ اس اعلان کے بعد بھی مہاراشٹر میں ہزاروں کسانوں سے خودکشی کی تھی ایسا ہونا لازمی تھا کیونکہ مہاراشٹر میںیہ قرض معافی کا فیصلہ انٹرنیٹ پر ہے جس کے بارے میں کسانوں کو پتہ نہیں ۔ اب وہ کھیتی کریں یا انٹر نیٹ چلانا سیکھ کر اپنے قرض معاف کرائیں؟ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی طرح یہ سب کر بھی لیں لیکن ان کی فصل تو بازارمیں صرف لٹنے کے لئے جاتی ہے۔ یہ شکایت اکیلے مہاراشٹر کی نہیں ہے گجرات، راجستھان، اترپردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ، کرناٹک اور تاملناڈو تک میں کسان خاتمے اور مایوسی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ کسانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ دیش کا ان داتا ہونے کے باوجود اپنا پیٹ بھی نہیں بھرپاتا۔ اگر اس کا پیٹ بھر بھی جاتا ہے تو تعلیم ، صحت اور دوسری ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں۔ یہ وجہ ہے کہ خودکشی کرنے کو مجبور ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنی جن سبھاؤں میں بول چکے ہیں کہ سال2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کردیں گے لیکن یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب کسانوں کی جائز مانگیں اور مسئلہ حل ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟