ضمنی چناؤ کا سندیش:متحد اپوزیشن بھاجپا کو ہٹا سکتی ہے

لوک سبھا کی تین سیٹوں کے نتیجے بھاجپا اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ یہ چناؤ نتیجہ بھاجپا کے لئے پیغام تو ہے ہی صرف ادھنائک وادی پرچار سے چناؤ نہیں جیتے جاسکتے۔ ذات پات ،سماجی تجزیہ اور نرم گوئی اور ورکروں و عوام کی امیدوں پر کھرا اترنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ اترپردیش میں بھاجپا نے بھلے ہی دو سیٹیں ہاری ہیں لیکن یہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ و نائب وزیر اعلی کیشوپرساد موریہ کی ہار ہے۔ وزیر اعلی یوگی کے لئے تو گورکھپور شخصی ہار ہے۔ گورکھپور سیٹ پچھلے 27 برسوں سے گؤ رکھشک مٹھ کے پاس ہے۔ یہ کہا جاتا ہے یہاں سے یوگی ہار ہی نہیں سکتے۔ آدتیہ ناتھ خود پانچ بار گورکھپور پارلیمانی حلقہ سے چناؤ جیتتے آرہے تھے اور 1991 سے وہاں بھاجپا کا قبضہ رہا ہے۔ نتیجے بتا رہے ہیں کہ بھاجپا کے چناوی انتظامات نے سپا اور بسپا کے لئے اتحاد کو صحیح سے نہیں پرکھ سکے۔ بھاجپا یہ نہیں سمجھ پائی کے اترپردیش کی ان دو بڑی پارٹیوں کے ووٹروں کااکٹھا ہونا بھاجپا کیلئے بڑی چنوتی بن سکتا ہے۔ نتیجوں سے صاف ہے کہ سپا اپنے امیدواروں کے حق میں بسپا کے ووٹوں کو منتقل کروانے میں کامیاب رہی ہے۔ اترپردیش کی پھولپور لوک سبھا سیٹ بھاجپا کے پاس چار سال بھی نہیں رہی۔ دیش کو آزادی ملنے کے بعد 1952 میں پہلی بار ہوئے عام چناؤ کے 62 سال بعد بھاجپا کو 2014 میں پھولپور میں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ سابق وزیر اعظم جواہرلعل نہرو کے حلقہ پھولپور سے کیشو پرساد موریہ نے 2014 میں ریکارڈ 3لاکھ8 ہزار ووٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ بھاجپا کا کمل اس سیٹ پرکھلا تھا۔ ضمنی چناؤ کی ریلیوں میں موجودہ ایم پی کیشو پرساد موریہ اس بات کا ذکر نہیں کرنا بھولتے تھے کہ اتنے ووٹوں کے فرق سے نہرو کبھی نہیں جیتے۔ اس سے زیادہ فرق سے جنتا نے انہیں جتا کر دیش کی سب سے بڑی پنچایت میں بھیجا تھا۔ 19 فروری کو شیلندر سنگھ پٹیل کوامیدوار بنائے جانے کے بعد کیشو پرساد موریہ لگاتار الہ آبا دمیں ٹکے رہے اور پارلیمانی حلقہ کا شاید ہی کوئی علاقہ بچا ہوگا جہاں ان کا اقتدار نہ ہو۔ یہاں بھی سپا اور بسپا کی حمایت نے بھاجپا کے سبھی داؤ پیچ بگاڑ دئے۔ بھاجپا نیتا کمپین کے دوران بھلے ہی کھل کر اتحاد کو نہ مانتے رہے ہوں لیکن انہیں بھی اندراندر سپا۔ بسپا کے ساتھ آنے کاڈر ستا رہا تھا۔ بھاجپا کی ہار کے لئے کم پولنگ بھی بڑی وجہ رہی۔ شہری نارتھ اور ویسٹ میں 2014 کے عام چناؤ اور 2017 کے اسمبلی چناؤ کے مقابلہ کم ووٹنگ ہوئی ہے۔ پارٹی پالیسیوں سے ناراض بھاجپا ورکر ووٹ ڈالنے ہی نہیں نکلے۔ یہ ہار یوگی کی ہے یا مرکز کی پالیسیوں کے خلاف عوامی ناراضگی کی ہے۔ آج سبھی طبقہ کے لوگ مرکز کی پالیسیوں سے پریشان ہیں۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر اعلی یوگی دونوں کے طریقہ کار سے بھاجپا ورکر ناراض ہیں۔ ناراضگی کا ہی نتیجہ ہے کہ گورکھپور اور پھولپور میں ووٹنگ فیصد کم ہوا۔ شہروں میں لوگ ووٹ ڈالنے ہی نہیں آئے۔ بھاجپا ورکر عام جنتا کے کام نہیں کرا پائے۔ سینٹرل اسکولوں میں داخلہ کا معاملہ ہو، گیس کنکشن کا ہو، یا نقل پر پابندی کا ہو یا کوئی دیگر پریشانی ہو، انہیں نہ تو وزیر اعلی سے ملنے کی اجازت ہے اور نہ ہی پی ایم سے۔ اس ہار سے بھاجپا کو اس بات کا اندازہ لگ گیا ہے کہ اترپردیش میں بسپا اور سپا کا اتحاد ہونے سے دونوں پارٹیوں کا ووٹ بینک متحد ہوسکتا ہے۔ بدھوار کو لوک سبھا کی تین سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ بھاجپا کو ملی ہار کے پیچھے ایک سیاسی ٹرینڈ بھی ہے جو پارٹی کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی نے 282 لوک سبھا سیٹیں جیتی تھیں لیکن بدھوار کو لوک سبھا چناؤ کے نتیجوں کے بعد اب تک پارٹی 6 سیٹیں گنوا چکی ہے۔
2014 لوک سبھا چناؤ کے بعد 11 ریاستوں میں 19 لوک سبھا سیٹوں پر چناؤ ہوئے ہیں۔ ان میں 8 سیٹیں بھاجپا کے پاس تھیں لیکن اب ان میں سے صرف2 سیٹیں ہیں برقرار رکھ سکی ہے 6 سیٹوں پر اسے ہار ملی ہے۔ بھاجپا صرف بروڈہ اور شہڈول سیٹ ہی جیت پائی ہے۔ 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو 282 سیٹیں ملی تھیں اب اس کے پاس 274 سیٹیں رہ گئی ہیں۔ کہنے کو تو محض دو ریاستوں کی پانچ سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہیں لیکن ان نتیجوں نے دیش کے مستقبل کی سیاست کی کہانی لکھنے کا کام بھی کیا ہے۔ نریندر مودی ۔ امت شاہ کی جیت کے تیز رفتار گھوڑے کوروکنے کی کوشش میں لگی اپوزیشن کے لئے اترپردیش اور بہار کے ان اہم ترین ضمنی چناؤ کے نتیجوں نے سنجیونی کا کام کیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے لئے یہ نتیجے بیحد اہم ہیں۔ اپوزیشن کو اب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ اس کا بکھراؤ ہی بھاجپا کی جیت کی بڑی وجہ ہے۔ ضمنی چناؤ میں بھاجپا سے اپوزیشن نے سیدھی لڑائی لڑی اور نتیجے سامنے ہیں۔ پھولپور اور گورکھپور و ارریہ تینوں کی لوک سبھا سیٹوں پر اپوزیشن کا ایک ہی امیدوار تھا۔ تینوں جگہ بھاجپا کے ساتھ سیدھی لڑائی تھی اور تینوں میں بھاجپا ہار گئی۔ ان تینوں سیٹوں کے نتیجوں سے یہ صاف پیغام ملتا ہے کہ اگر اپوزیشن متحد ہوکر چناؤ لڑے تو 2019 میں بھاجپاکو روکا جاسکتا ہے۔ بھاجپا قیادت کے لئے ابھی بھی وقت ہے اپنے برتاؤ کو بدلنے کا۔ یہ غرور بھی ٹوٹنا ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟