سونیا گاندھی کی ڈنر ڈپلومیسی

جمہوری نظام میں جہاں یہ ضروری ہوتا ہے کہ حکمراں فریق مضبوط ہو وہیں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپوزیشن بھی مضبوط ہو نہیں تو حکمراں فریق سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔موجودہ حالت یہی ہے کہ اپوزیشن انتہائی کمزور ہے۔ حکمراں فریق زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے اس نقطہ نظر سے کانگریس پارٹی کی سینئر لیڈر اور یوپی اے کی چیئرمین سونیا گاندھی کی پہل لائق تحسین ہے۔ ویسے سونیا گاندھی کے ذریعے اپنی رہائش گاہ پر دی گئی ڈنر پارٹی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اتحاد کی مضبوط بنائے رکھنے کیلئے وہ اس طرح کے ڈنر کراتی رہی ہیں لیکن اس بار ڈنر پارٹی دیش میں مودی۔ شاہ کی جوڑی کے وجے رتھ کوروکنے کے لئے اپوزیشن اتحاد کی بنیاد رکھنے کیلئے دی گئی۔ سونیا گاندھی نے کانگریس صدر کا عہدہ بھلے ہی چھوڑدیا ہو لیکن وہ نہ صرف کانگریسی پارلیمانی پارٹی کی بلکہ یوپی اے کی چیئرمین بھی ہیں۔ راہل گاندھی کے کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب سونیا گاندھی کی طرف سے ایک بڑی سیاسی پہل کی گئی ہے۔ ڈنر ڈپلومیسی کے ذریعے سونیا نے یہ پیغام دینے کی بھی کوشش کی کہ بھاجپا کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی قیادت کرنے کو کانگریس تیار ہے۔ یکساں آئیڈیا لوجی والی سیاسی پارٹیوں کو اپنی رہائش گاہ 10 جن پتھ پر دعوت دے کر سونیا نے اس قیاس آرائیوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جس میں کہا جارہا تھا کہ راہل گاندھی کی لیڈر شپ کو دیگر پارٹیوں کے نیتا آسانی سے قبول نہیں کریں گے۔ مطلب صاف ہے بھاجپا کے خلاف بننے والی اپوزیشن کے کسی بھی اتحاد کے سینٹر میں کانگریس ہی ہوگی اور خود سونیا گاندھی اپوزیشن اتحاد کی مضبوط کے لئے کام کرتی رہیں گی۔ ڈنر کے بہانے سونیا گاندھی نے اگلے لوک سبھا چناؤ کے لئے اپوزیشن کے مہا گٹھ بندھن کو لیکر ان 17 نیتاؤں کی نبض ٹٹولنے کی بھی کوشش کی جنہوں نے اس ڈنر میں حصہ لیا۔ ویسے یہ ڈنر پارٹی 2019 کے لوک سبھا چناؤ سے پہلے اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے ، ان میں تعاون اور تال میل کی راہ مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔ سونیا کی نظر جہاں اتحاد کا سائز بڑھانے پر ہے وہیں زیادہ سے زیادہ عاقائی پارٹیوں کو ساتھ لیکر وہ یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ بھاجپا کو روکنے کے لئے ان کے پاس حکمت عملی بھی ہے اور سیاسی متبادل بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جیتن رام مانجھی اور بابو لال مرانڈی جیسے لیڈروں کو بھی بلایا گیا۔ ایک کے بعد ایک مسلسل ہار اور بھاجپا کے بڑھتے ابھار کے درمیان یکساں آئیڈیالوجی والی پارٹیوں میں کانگریس کی یہ پہل کتنی کارگر ثابت ہوگی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟