نہیں تھمے گی دہلی میں سیلنگ

دہلی کے تاجروں کو سیلنگ سے راحت ملنے کا امکان تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے منگلوار کو راجدھانی کے ماسٹر پلان 2021 میں ترمیم کرنے پر روک لگای ہے۔ ان ترامیم کے ذریعے مرکزی سرکار دہلی کے تاجروں کو سیلنگ سے راحت دینے کی تیاری کررہی تھی۔ اب تمام بازاروں کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں میں چلنے والی کاروباری دوکانوں پر بھی سیلنگ کی تلوار لٹک گئی ہے۔ دہلی میں پچھلے 22 دسمبر سے بازاروں میں سیلنگ کی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر مانیٹرنگ کمیٹی کی رہنمائی میں ڈھائی مہینہ کے اندر 2500 سے زیادہ املاک سیل کی گئی ہیں۔ اس کے احتجاج میں تاجروں کی تحریک، دھرنا ،مظاہرے جاری ہیں۔ راحت کے لئے مرکزی شہری محکمہ کی پہل پر ڈی ڈی اے نے کارروائی شروع کی تھی۔ اسی بنیاد پر ڈی ڈی کے ذریعے راحت کا ایک ڈرافت تیار کیا گیا تھا لیکن منگل کو سپریم کورٹ نے اس ڈرافٹ کے خلاف منفی رویہ ظاہر کیا۔ اس نے ماسٹر پلان 2021 کو لاگو کرنے کی ہدایت دے دی۔ سپریم کورٹ کے رخ کے بعد راجدھانی کے سبھی بڑے بازار سیلنگ کی زد میں آگئے ہیں۔ دراصل دہلی کے تقریباً سبھی بازاروں میں ایسی دوکانیں کم ہی ہیں جہاں پر تعمیراتی قواعد اور اراضی اثاثہ ایکٹ کی کسی نہ کسی شکل میں خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ دراصل سپریم کورٹ نے جو سوال کئے ہیں وہ کافی تلخ ہیں اس وجہ سے ڈی ڈی اے فیڈ اوور دینے میں دیری کررہی ہے۔ ڈی ڈی اے نے ان ترامیم کے ذریعے کسی طرح کا ہوم ورک نہیں کیا۔ عدالت ہذا نے صاف الفاظ میں پوچھا کہ ان ترامیم کا دہلی کی آب و ہوا پر کیا اور کتنا اثر پڑے گا؟ کیا پارکنگ سہولت دستیاب کرانے کیلئے پہلو پر غور ہوا ہے؟ کیا لوگوں کو شہری سہولیات خاص کر پانی دستیاب کرایا جائے گا؟ سیور و کچرہ نپٹان و بجلی سپلائی کے پہلو پر غور ہوا ہے؟ کیا عمارت کی حفاظت کے پہلو پر بھی غور ہوا ہے؟ کیا سبھی عمارتوں کی حفاظت کو لیکر کوئی اسٹڈی ہوئی ہے؟ کیا دہلی کی بڑھتی آبادی کے پہلو پر غور کیا گیا ہے؟ کیا آلودگی کنٹرول بورڈ کے پاس 2006 سے اب تک کا دہلی کی آلودگی پر ریکارڈ ہے؟ کیا آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لئے قدم اٹھائے گئے؟ دہلی کے تاجروں کو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے دھکا لگا ہے اب وہ احتجاج کی شکل میں بازار بند کرنے جارہے ہیں۔ حکام کی غلطیوں کے سبب تاجر تباہ ہورہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟