کیا نارتھ ایسٹ کے ان راجیوں میں کمل کھلے گا

نارتھ ایسٹ کے تریپورہ میں 18 فروری کو میگھالیہ اور ناگالینڈ میں 27 فروری کو ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ بھاجپا پہلی بار ان تین ریاستوں میں پورے دم خم کے ساتھ چناؤ لڑ رہی ہے۔ وہ ان تین ریاستوں میں پہلی بار حکمراں پارٹی کو سیدھی چنوتی دے رہی ہے وہیں کانگریس یہاں اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ کانگریس کی تشویش کی اہم وجہ یہاں اس کا کھسکتا مینڈیٹ ہے اور وہاں بھاجپا کی جارحانہ چناوی کمپین نے بھی پارٹی کے لئے مشکلیں بڑھا دی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ نارتھ ایسٹ کسی وقت کانگریس کا اچھا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن مرکز میں مودی سرکار آنے کے بعد اس کی پکڑ لگاتار کمزور ہورہی ہے۔ مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کے ایجنڈے میں نارتھ ایسٹ پہلی ترجیح ہے۔ مودی سرکار نے نارتھ ایسٹ کی ترقی کو لیکر ایک کے بعد ایک کئی فیصلے لئے جس کے چلتے کانگریس کے ہاتھ سے اس کی زمین کھسکتی چلی گئی۔ پہلے آسام بعد میں منی پور ،ناگالینڈ میں جہاں 2003 سے پہلے کانگریس کا دبدبہ ہوا کرتا تھا وہاں اس بار چناؤ میں اسے امیدواروں کی قلت پڑ گئی۔ پارٹی نے کل23 امیدوار اتارے ہیں جس میں سے محض 19 ہی میدان میں رہ گئے۔ میگھالیہ میں اس بار اہم مقابلہ بھاجپا ۔ کانگریس کے درمیان ہے۔ ریاست میں ہر چناؤ میں آزاد بڑی تعداد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پچھلی بار 13 امیدوار جیتے تھے۔ یہاں 372 امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں 22 خواتین ہیں۔ ریاست کے قریب 75 فیصد ووٹر عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھاجپا ریاست کی 47 سیٹوں پر چناؤ لڑ رہی ہے۔ باقی13 سیٹیں علاقائی پارٹیوں کو دے رکھی ہیں۔ ناگالیڈ کی59 نشستوں پر 27 کو ووٹ پڑنے ہیں ان پر195 امیدوار کھڑے ہوئے ہیں۔ ان میں 5خاتون ہیں۔ بھاجپا نے چناؤ سے ٹھیک پہلے این پی ایف سے 15 سال پرانا ناطہ توڑ کر این ڈی پی پی سے اتحادکیا ہے۔ این ڈی پی پی 40 اور بھاجپا 20 سیٹوں پر چناؤ لڑ رہی ہے۔ این پی ایف 59 سیٹوں پر چناؤ لڑ رہی ہے۔ پانچ دہائیوں سے تریپورہ کے اقتدار پر قابض لیفٹ پارٹیوں کی حکومتیں تھیں اس بار پٹخنی دینے کا بھاجپا کو پکا بھروسہ ہے۔ ریاست میں اب تک کھاتہ کھولنے میں بھی ناکام رہی بھاجپا اس بار چناؤ میں’چلو پلٹ دیں سرکار ‘ کے نعرہ کے ساتھ پسینہ بہا رہی ہے۔ یہاں بھاجپا کی سب سے بڑی چنوتی ہے مکھیہ منتری منک سرکار ی شخصی ساکھ۔ منک سرکار1988 سے ریاست کے وزیر اعلی ہیں۔ ان کے پاس 1520 روپے محض نقدی ہیں اور 2410 روپے بینک میں ہیں۔ سی ایم کی تنخواہ کے طور پر انہیں 25000 روپے ملتے ہیں لیکن وہ یہ رقم مارکسوادی پارٹی کے قاعدوں و ضوابط کے تحت پارٹی کو دے دیتے ہیں۔ اس میں سے انہیں 9000 روپے بطور بھتہ ملتے ہیں۔ منک کے پاس نہ تو خود کا موبائل ہے اور نہ گھر ہے اور نہ کار ہے۔ وہ سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے۔ منک سرکار کو تریپورہ کی جنتا اپنا آدرش مانتی ہے۔ منک سرکار دیش کے سب سے غریب ترین وزیر اعلی بھی ہیں۔ وزیر اعلی بننے کے بعد ان کی ذاتی پراپرٹی مسلسل کم ہوئی ہے۔ نارتھ ایسٹ کی دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں تریپورہ کی سیاست تھوڑی الگ ہے۔ یہاں سی ایم منک سرکار کی صاف ستھری ساکھ کی وجہ سے سرکاری یوجناؤں کا فائدہ ہر پنچایت تک پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ مارکسوادی پارٹی کی تنظیم ہر گاؤں تک پھیلی ہوئی ہے۔ سرکاری اسکیموں کی کوالٹی کی جانچ پنچایت سطح کے عہدیداران کے ہاتھوں میں ہے۔ ہر مہینے اسکیموں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ پانچ دہائیوں سے تریپورہ کے اقتدار پر قابض لیفٹ حکومت کو اس بار پٹخنی دینے کا بھاجپا کو پکا بھروسہ ہے۔ ریاست میں زبردست بے روزگاری سے خاص طور سے نوجوان طبقہ میں بیحد ناراضگی ہے اس کا سیدھا فائدہ بھاجپا کومل سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ نے چناؤ جیتنے کے لئے پوری طاقت جھونک رکھی ہے۔ دیکھیں نارتھ ایسٹ میں بھاجپا کتنی کامیاب ہوتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟