اس گھوٹالہ نے تو بینکنگ سسٹم کی ہی چولیں ہلادیں

بینکوں کو چونا لگاکر بیرون ملک بھاگنے وجے مالیا جیسے ہی ایک اور بڑے معاملہ میں جمعرات کے روز انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ نے کئی جگہ پر چھاپہ ماری کی اور اہم ملزم ارب پتی ہیرا کاروباری نیرو مودی کے ممبئی ۔سورت اور دہلی سمیت 17 جگہوں پر چھاپہ مار کر 5700 کروڑ روپے کا اثاثہ ضبط کیا ہے۔ نیرو مودی پر پنجاب نیشنل بینک کی ممبئی میں صرف ایک برانچ سے 11400 کروڑ روپے کی دھوکہ دھڑی کا الزام ہے۔ اسے دیش کے بینکنگ سیکٹر کی سب سے بڑی جعلسازی کہا جارہا ہے۔ پی این بی میں سامنے آئے اس 11400 کروڑ روپے کے دیش کے سب سے بڑے بینک گھوٹالہ سے پورے بینکنگ نظام کی چولیں ہل گئی ہیں جو کہ پہلے سے ہی پھنسے قرض اور بدانتظامی سے لڑ رہی ہے۔ پی این بی کا انتظامیہ بھلے ہی صفائی دے رہا ہے کہ یہ گڑ بڑی 2011 سے چل رہی تھی اور اس نے اپنے کچھ ملازمین پر کارروائی بھی کی تھی لیکن اس گھوٹالہ سے وابستہ بہت سے سوالوں کا جواب ملنا باقی ہے۔ قریب 11400 کروڑ روپے اتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے پی این بی کی قیمت شیئر بازار کے حساب سے قریب 30 ہزار کروڑ روپے کی ہے یعنی کل قیمت کے قریب ایک تہائی قیمت کی ذمہ داری اس گھوٹالہ کی وجہ سے پیدا ہوئے اس بینک کو حال میں جتنا نیا سرمایہ سرکار سے ملا تھا اس سرمائے کا قریب دو گنا رقم اس گھوٹالہ میں اڑنے کا اندیشہ ہے۔ موٹے طور پر اس گھوٹالے کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ پی این بی سے قریب 11400 کروڑ کی ادائیگی ایسی گارنٹی گلوبل اداروں کو دی گئی جس کے بارے میں بینک کا کہنا ہے کہ وہ گارنٹی ناجائز تھی یعنی بینک میں سینئر مینجمنٹ کو نہیں پتہ لیکن کسی جونیئر افسر نے پی این بی کی طرف سے ایسی گارنٹی دے دی۔ اگرچہ گھوٹالہ سے جڑے سوالوں کا جواب ابھی نہیں ملے لیکن اگر گھوٹالہ کے بارے میں پہلے سے ہی کسی طرح کی بھنک مل گئی ہوتی تو جوہری نیرومودی اور ان کے ساتھی اس طرح سے فرضی گارنٹی کے ذریعے دو درجن بینکوں کی غیر ملکی شاخوں کے لئے قرض دبائے بیٹھے رہے؟ یہ بھی بات گلے نہیں اترتی کہ پی این بی کے صرف دو افسروں نے سوئپٹ میسیجنگ سسٹم کے ذریعے پیغام بھیج کر نیرو مودی اور ان کے ساتھیوں کی زیوراتی کمپنیوں کے لئے غیر ممالک میں قرض کا اضافہ کردیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بینک عام گراہکوں کو چھوٹا موٹا قرض دینے کے لئے بھی درجنوں چکر لگواتے ہیں۔ کئی طرح کی خانہ پوریاں اور گارنٹی وغیرہ مانگتے ہیں لیکن ایک جوہری کو ہزاروں کروڑ روپے کا قرض دینے کے لئے فرضی گارنٹی دی جائے اور بینک انتظامیہ، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور وزارت مالیہ اور دیگر مالیاتی اداروں کو اس کی بھنک تک نہ لگے، یہ کیسے ممکن ہوگیا؟ وجے مالیا کا معاملہ تو ابھی پرانا بھی نہیں ہوا اس کے باوجود پبلک سیکٹر کے بینکوں نے نہ تو اپنی نگرانی مشینری کو اور نہ ہی جوابدہی کو مضبوط کیا۔ہر کسی کے دل میں پہلا سوال یہ ہی آتا ہے جب دو چار لاکھ کا قرض دینے میں سرکاری بینک پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں تو قریب 114 ارب روپے کا گھوٹالہ کیسے ہوگیا؟ نیرو مودی کی گنتی بھارت کے 50 سب سے امیر ترین اشخاص میں ہوتی ہے۔ فوربیس میگزین نے 2016 میں انہیں ارب پتیوں کی فہرست میں بھارت میں 46ویں اور دنیا میں 1067 ویں مقام پر بتایا تھا لیکن اب یہ صاف ہوگیا ہے کہ ان کے اس کارنامہ اور شہرت کے پیچھے دھوکہ دھڑی اور لوٹ کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہوگا۔ کیا اس طرح کا طریقہ اپنانے والے نیرو مودی ایک ڈھونگی ہیں؟ یہ گھوٹالہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک دن پہلے ریزرو بینک نے این پی اے کی بابت اور سختی دکھاتے ہوئے سرکاری بینکوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ پھنسے ہوئے قرض کے معاملہ میں 1 مارچ سے 6 مہینے کے اندر سلجھالیں۔ بغیر ادائیگی والے 5 کروڑ روپے سے زیادہ کے کھاتوں کی تفصیل ہر ہفتہ دینی ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر پنجاب نیشنل بینک طے قواعد کے مطابق کام کررہا ہوتا اور اسکی نگرانی مشینری چوکس ہوتی تو نیرو مودی بینک کو کھوکھلا کرنے کا کام نہیں کرسکتا تھا۔ کیا یہ عجب نہیں کہ نیرو مودی کے گورکھ دھندے کی شروعات 2011 میں ہوئی لیکن اسے قریب 7 سال کے بعد ہی پکڑا جاسکا۔آخر پنجاب نیشنل بینک نے وقت رہتے اس کی پرواہ کیوں نہیں کی۔ نیرو مودی سینکڑوں کروڑ کی رقم ادھار لئے جارہا ہے اور اسے چونکانے کا نام نہیں لے رہا ہے؟ یہ ایک پیٹنٹ بن گیا ہے کہ بڑا گھوٹالہ کروں اور وجے مالیہ کی طرح دیش سے باہر نکل جاؤ۔ غور طلب ہے کہ پی این بی سرکاری بینک ہے اس میں سیاسی مفادات نہیں ہیں اس لئے گھوٹالہ کی خبر آتے ہی یہ صاف ہوگیا ہے کہ یہ گھوٹالہ 2011 سے یعنی موجودہ سرکار کے2014 میں آنے سے پہلے ہی سے جاری ہے۔ سیاسی بحث اپنی جگہ ہے لیکن اشو اتنے بڑے ہیں بینک کو سرکارڈوبنے نہیں دے گی۔ اس میں اور سرمایہ ڈالا جائے گا۔ یہ سرمایہ ظاہر ہے آپ ہم ٹیکس دہندگان کی جیب سے جانے والا ہے۔ نیرو مودی اور ان کے ساتھیوں پر کارروائی کرنے کے ساتھ پی این بی کے لاکھوں چھوٹے کھاتے داروں کے مفادات محفوظ رہیں یہ یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے ورنہ بینکنگ سسٹم سے ہی ان کا بھروسہ اٹھ جائے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟