آدھی رات کے وار سے چلی تکرار

دہلی میں افسر شاہی اور دہلی سرکار کے درمیان ٹکراؤ ویسے تو لمبے عرصہ سے چلاآرہا ہے مگر پیر کی درمیانی رات میں ہوئے واقعات نے مریادہ کی سبھی حدیں پار کردیں۔ سبھی کو شرمندہ کردیا۔ شروعات پیرکی شام سے ہوئی تھی۔ دہلی کے چیف سکریٹری انشو پرکاش کو وزیراعلی کیجریوال کی رہائش گاہ پر بلانے کے لئے چار بجے کال کیاگیا۔ بتایا گیا کہ کچھ اشو پر بات رنی ہے۔ رات 12 بجے انشو پرکاش وزیر اعلی کے گھر پہنچے۔ یہاں سی ایم کیجریوال سمیت 10-11 ممبر اسمبلی موجود تھے۔ انشو پرکاش کا الزام ہے کہ یہاں ان پر عاپ کے ایک اشتہار کو پاس کرانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔ جب وہ منع کرکے جانے لگے تو دو ممبران اسمبلی نے انہیں کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہیں بٹھا دیا۔ دوبارہ اٹھے تو گال پر زور سے چانٹا مارا اور پیٹ پر بھی گھونسے مارے اور گالیاں بھی دیں۔ وہیں عاپ کے ممبران اسمبلی نے کہا کہ کوئی ہاتھا پائی نہیں کی گئی اور چیف سکریٹری کو راشن تقسیم سسٹم کو لیکر تبادلہ خیال کے لئے بلایا گیا تھا۔ انہوں نے ذات پات کا بھی کوئی لفظ نہیں کہا۔ عاپ کے ممبران کا تنازع کا اشو جو بھی رہا ہو لیکن انشو پرکاش سے ہاتھاپائی اور مار پیٹ کی تصدیق ایل جی رپورٹ بھی کرتی ہے۔ چیف سکریٹری جہاں میٹنگ کا موضوع اشتہار بتا رہے ہیں وہیں سرکار ڈھائی لاکھ لوگوں کو راشن نہ ملنے کے اشو پر میٹنگ میں بات کررہے تھے۔ سرکار کے بیان کو لیکر کئی سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ میٹنگ کی وجہ راشن کو لیکر تھی تو وزیر خوراک عمران حسین اور محکمہ فوڈ سپلائی کے دو افسران کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ چیف سکریٹری کے ساتھ مار پیٹ پر عاپ حکومت لگاتار صفائی دے رہی ہے۔ جنتا کو گھر گھر راشن پہنچانے کے سلسلہ میں وزیر اعلی کی رہائش گاہ پر میٹنگ بلائی گئی تھی۔ عوام کو گذشتہ2 مہینے سے غلط فیصلہ لاگو کرنے سے راشن نہیں مل پارہا تھا۔ دراصل حکومت نے کام کاج کے کارناموں کا ایک اشتہار تیار کیا تھا۔ اسے سرکار کے تین سال پورے ہونے پر جاری کیا جانا تھا۔ اشتہار میں وزیر اعلی نے کہا تھا کہ تین سال کے کام کاج کے دوران بہت سی مشکلات آئیں مگر ایمانداری سے کام کرنے اور صحیح راستے پر چلنے کے چلتے انہیں کئی ناپسندیدہ اور بیہودہ طاقتوں نے روکنے کا کام کیا۔ افسر نے اسی بیہودہ لفظ کو لیکر اعتراض جتایا تھا اور اشتہار روک دیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنس کو لیکر بھی حکام نے کچھ اعتراض جتائے تھے جب سے سرکار کے نشانہ پر چیف سکریٹری تھے۔ بتادیں کہ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنس کے تحت کسی بھی سرکاری اشتہار کو متعلقہ محکمہ کے سرٹیفکیٹ کے بغیر ٹیلی کاسٹ یا شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے تحت اس محکمہ کو بتانا ہوگا کہ اشتہار کے لئے دیا گیا مواد جائز ہے یا آئینی نقطہ نظر سے صحیح ہے۔ محکمہ کے ذریعے اگر اشتہار کو ویریفائی نہیں کیا جاتا تو اطلاعات و پبلسٹی محکمہ اس اشتہار کو جاری نہیں کرسکتا۔ اس گائیڈ لائنس کے چلتے دہلی سرکار کے کئی اشتہار پہلے بھی رکے تھے۔ اسی کے تحت سرکار کے قائم کے تین سال پورے ہونے پر بھی کیجریوال سرکار کا ٹی وی چینلوں پرٹیلی کاسٹ ہونے والا اشتہار بھی نہیں جاری ہوسکا۔ چیف سکریٹری کے ساتھ مار پیٹ معاملہ کا اگر جلد ہی کوئی حل نہیں نکلا تو دہلی کا انتظامی کام کاج بھی ٹھپ ہوسکتا ہے۔ تشویش کا باعث یہ بھی ہے کہ بجٹ سیشن کا وقت بھی نزدیک ہے۔ 
حکام کی غیر موجودگی میں یا ان کے عد تعاون کی صورت میں اس کے بھی متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ منگلوار کو دہلی کے ڈینکس افسران ہڑتال پر رہے ۔ افسران نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اعلی و نائب وزیر اعلی اور دیگر وزرا سے اب محض تحریری خط و کتابت کے ذریعے سے ہی تنازعات کا نپٹارہ ہوگا۔ افسر دہلی سرکار کی کسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے انتظامی حکام کے ساتھ کیجریوال سرکار کا تنازع کوئی نیا نہیں ہے۔ کئی سینئر افسران کے ساتھ وزیر اعلی اور وزراء کے درمیان اختلافات سامنے آچکے ہیں۔ تنازع کی وجہ سے کئی افسر دہلی سے باہر چلے گئے ہیں۔ اسی طرح کے تنازع کا سیدھا اثر دہلی کی ترقی پر بھی پڑتا ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی صورت میں دہلی کے شہریوں کے مفاد میں نہیں ہے اور بار بار یہ کہنے سے کہ اس کے لئے مرکزی سرکار ذمہ دار ہے اپنی ذمہ داری سے یہ بچنے کی کوشش ہے۔ آخر کانگریس کی اس وقت کی وزیر اعلی شیلا دیکشت نے بھی 15 سال اسی افسر شاہی کے ساتھ دہلی کو چلایا اور ترقی کا کام کیا۔ عام آدمی پارٹی کو ہر اشو پر ٹکراؤ کرنے کے بجائے تھوڑی سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔ انہیں آخر دہلی کے وکاس کے لئے زبردست اکثریت ملی تھی نہ کے حکام سے بیوجہ تنازع پیدا کرنے کے لئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟