سرحد پر جنگ جیسے ماحول سے دہشت

مسلسل جاری پاکستانی فوجوں کی گولہ باری سے سرحد پر جنگ جیسا ماحول بن دیا ہے۔ سنیچر کو تو لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد سے لگے اسکول بھی بند رہے۔سرحدی علاقوں کے علاوہ گوا میں رہنے والوں کے درمیان دہشت ہے اور جنگ جیسی حالت پر پاک گولہ باری کا ہندوستانی فوج منہ توڑجواب دے رہی ہے۔ سنیچر کو مسلسل چوتھے دن بھی پاکستان کی طرف سے ہندوستان کی سیکورٹی چوکیوں و رہائشی بستیوں سمیت کٹھوہ کے پہاڑ پور سے لیکر پوری ہند۔ پاک سرحد سے علاوہ کنٹرول لائن سے لگے علاقہ راجوری اور پونچھ کو نشانہ بنایا گیا۔ جموں و کشمیر سے لگتی سرحد پر حالات کس قدر خراب ہورہے ہیں یہ ایک تو اس سے صاف ہے کہ پچھلے چار دنوں میں پانچ جوان سمیت 11 لوگ پاکستانی فائرننگ کا نشانہ بنے ہیں۔ اس سے بھی سرحدی علاقوں کے قریب 40 ہزار لوگوں کو اپنا گھر چھوڑ کر راحتی کیمپوں میں یا دیگر مقامات پر رہنا پڑ رہا ہے۔ سرحدی دیہات میں گھروں میں پھیلا خون اور کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشے اور ڈھے گئی چھتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے پچھلے چار دنوں میں پاکستانی گولہ باری نے ان علاقوں میں کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ ان دیہات میں گن پاؤڈر کی بدبو بسی ہوئی ہے۔ ایک مقامی باشندہ خاتون رتنا دیوی کہتی ہیں ، ہم لوگ موت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ ہماری چھتوں پر مورٹار بموں کی بوچھار ہورہی ہے۔ ایک بار تو ایسا لگا کہ ہم اب ہم سب مر جائیں گے لیکن پولیس ہم لوگوں کو باہر نکال لے آئی۔ دیوی نے بتایا کہ سائی خورد میں گولہ باری میں کئی مکان تباہ ہوگئے ہیں۔ کئی جانوروں کی موت ہوئی ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے چلتے سرحدی بستیوں سے چار ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ چونکہ پاکستانی فوج مسلسل گولہ باری کررہی ہے اس لئے حالات جنگ جیسے نظر آرہے ہیں۔ یہ حالات اس پراکسی وار کا حصہ ہے جو پاکستان نے کشمیر میں تھونپی ہوئی ہے۔ پاکستانی فوج نے پچھلے ایک ہفتے میں قریب100 دیہات کو نشانہ بنایا۔ عام طور پر جموں و کشمیر میں سال میں ایک بار دوہری صورتحال بن جاتی ہے جیسے آج نظر آرہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہ تو سرحد کو پختہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی ایسی اسکیم پر جس کے تحت جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو محفوظ مقامات پر بسایا جاسکے۔ جس طرح سے پاکستان گولہ باری کررہا ہے اس سے صاف ہے کہ اب دراندازوں کے ساتھ ساتھ پاک فوج بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ جو گولہ باری ہورہی ہے یہ نہ تو کوئی جہادی تنظیم کرسکتی ہے اور جس طرح مورٹار ۔ بموں کا استعمال ہورہا ہے یہ صرف پاک فوج ہی کرسکتی ہے۔ آر ایس پورا سیکٹر کے ایس جی او سریندر سنگھ چودھری کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقہ حقیقت میں جنگی علاقہ میں بدل گئے ہیں۔ پاکستانی شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے مکانوں اور جانوروں کو کافی نقصان ہوا ہے۔ ہم سرحدی علاقوں کے گاؤں کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر لے جارہے ہیں۔ یہ سوال ہے کہ ہم صورتحال کو قابو میں لانے کے لئے کیا کررہے ہیں؟ آئے دن پاکستان کے حکمراں نیوکلیئر بم مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے پانچ مارے اور ہم نے ان کے 10 مارے یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ذہنی نفر ت میں اندھا پاکستان بھارت کو نہ صرف سب سے بڑا خطرہ مانتا ہے، بلکہ اسے نقصان پہنچا کر اس کی برابری بھی کرنا چاہتا ہے۔ ایسا پاگل پن اوچھے نظریئے کی عکاسی ہے۔ معمولی طور طریقوں سے اس سے نہیں نمٹا جاسکتا۔ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے کچھ کشمیری نیتا کہہ رہے ہیں کہ ان سے بات چیت کی جانی چاہئے۔ ان حالات میں بات چیت کیسے ہو؟ مودی سرکار کو اس برننگ اشو کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟