اچھے اشاروں سے سینسیکس میں بھاری اچھال

اقتصادی محاذ پر اچھے اشاروں کے چلتے سینسیکس بدھوار کو ریکارڈ 35ہزار نمبر کے شمار کو پار کرگیا۔ شیئر بازار حالانکہ پچھلے کچھ دنوں سے اچھال بھر رہا تھا لیکن موجودہ مالی سال میں مزید ادھاری کا ٹارگیٹ 50 ہزار کروڑ روپے سے گھٹا کر 20 ہزار کروڑ روپے کرنے کے سرکار کے اعلان نے جیسے نئی جان پھونک دی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی کئی وجہ ہو سکتی ہیں۔ فاضل ادھاری کا 50 سے گھٹ کر 20 ہزار کروڑ ہونے کے سبب بھی بازار میں تیزی آئی۔ پھر جی ایس ٹی، نوٹ بندی کے چلتے صنعتی پیداوار کے بڑھنے سے بھی بازار میں یہ اچھال دیکھنے کو ملا ہے ۔ وہیں پی سی ایس انفورسز وغیرہ کے بہتر نتیجوں کے سبب بازار ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے بھارت میں تیزی سے بڑھتی اقتصادی اصلاحات سے غیر ملک کے ساتھ گھریلو سرمایہ کاروں کا بھروسہ بڑھا ہے۔ ایسے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ 2018 کے آخرتک 40 ہزار کے نمبر کو چھو سکتا ہے جبکہ نفٹی 12800 کے نمبر تک پہنچ سکتا ہے۔ اپریل ۔ مئی تک اسے سینسیکس 37 ہزار اور نفٹی 11300 نمبر تک جا سکتا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی باقاعدہ پریشانیوں کا صنعتی کاروبار پر جو اثر پڑا ہے اب وہ آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے ساتھ ہی سرکار جی ایس ٹی کو ضرورت کے مطابق گھٹا رہی ہے۔ اس سے بھی بازار میں جوش ہے۔ صنعتی پیداوار میں اضافہ اور آٹو موبائل سیکٹر میں بڑھتی بکری جیسے اعدادو شمار سے بھی معیشت کے تئیں امید بڑھی ہے حالانکہ شیئر بازار پوری معیشت کا آئینہ تو نہیں ہوتا بھارت جیسے ملکوں میں تو اور نہیں ، جہاں صرف 20 فیصدی آبادی کی ہی شیئر بازار میں موجودگی ہوتی ہے۔ ذراعت اور روزگار کے محاذ پر حالات بہت بہتر نہیں ہیں۔ اوپر جاتی افراط زر شرح اور کچے تیل میں آرہی تیزی بھی چنتا بڑھاتی ہے لیکن اقتصادی ڈسپلن کے محاذ پر سرکار کے کھرے اترنے اور پچھلے جھٹکوں سے نکلتے ہوئے معیشت کے پٹری پر لوٹنے کے اشارے امید تو جگاتے ہی ہیں کہ اقتصادی اصلاحات کے تئیں سرکار کے عزم میں سرمایہ کاروں کا بھروسہ بڑھایا ہے اس کے علاوہ بھاجپا کو ریاستوں میں ملی کامیابی اور مرکز میں استحکام نے بھی بازار میں بھروسہ پیدا کیا ہے۔اچھال میں آئی ٹی سیکٹر کی بہتر پرفارمینس بھی ایک وجہ رہی ہے۔ 13 مئی2014 کو سینسیکس 24069 تھا جو بڑھ کر 2018 میں 75681 ہو گیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟