اپریل کے بعد بدل جائے گی راجیہ سبھا کی تصویر

پارلیمنٹ میں لوک سبھا کے بعد اکثریتی پارٹی بی جے پی اب راجیہ سبھا میں بھی سب سے بڑی پارٹی بننے جارہی ہے۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی اصلی تصویر اپریل میں بدلے گی جب اس کے 55 ممبران کی میعاد پوری ہوگی۔ اپریل ماہ میں 53 ممبران کی میعاد ختم ہونے جارہی ہے اور اگر متعلقہ ریاستوں کی موجودہ اسمبلی کی تصویر پر نظر ڈالی جائے تو ان کی جگہ چن کر آنے والے ممبران میں بھاجپا کو 6 سیٹوں کا فائدہ ہوسکتا ہے اور کانگریس کو 4 سیٹوں کا نقصان جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے اپریل میں بھاجپا کے 23 ، کانگریس کے 8 اور دیگر پارٹیوں کے 21 ممبران جیت کر آسکتے ہیں۔ 27 جنوری کو کانگریس کے تین ممبران کی میعاد پوری ہو جائے گی۔ کانگریس کے جناردن دویدی، پرویز ہاشمی اور ڈاکٹر کرن سنگھ ریٹائر ہوگئے ہیں۔ تینوں راجیہ سبھا میں دہلی کی نمائندگی کررہے تھے۔ ان کی جگہ پر اب عام آدمی پارٹی کے تین ممبر سنجے سنگھ، نارائن داس گپتا اور سشیل گپتا کو آنا ہے۔ جبکہ فروری میں سکم میں ڈیموکریٹک فرنٹ کے لیڈر کیشو لاینگ پا 23 تاریخ کو ریٹائر ہوں گے۔ ان تینوں ممبران کے جانے کے بعد کانگریس کے ممبران کی تعداد گھٹ کر 54 رہ جائے گی۔ راجیہ سبھا میں حکمراں بی جے پی کے ساتھ ابھی تک نہ تو اکثریت تھی اور نہ ہی وہ سب سے بڑی پارٹی تھی۔ اپریل میں جن کی میعاد پوری ہوگی ان میں مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی ، جے پی نڈا، روی شنکر پرساد، پرکاش جاوڑیکر، کانگریس نیتا پرمود تیواری، راجیو شکلا، رینوکا چودھری اور نامزد ممبران ریکھا اور سچن تندولکر شامل ہیں۔ اگر ایوان بالا میں موجودہ تعداد کی طاقت پر نظر ڈالی جائے تو بھاجپا کے 58 ممبر اور کانگریس کے 57 ممبر ہیں۔ اپریل میں 55 ممبران کی جگہ نئے یا دوبارہ چنے ممبران کی آمد کے بعد بھاجپا ممبران کی تعداد بڑھ کر 64 اور کانگریس ممبران کی تعداد گھٹ کر 53 ہوسکتی ہے۔ اترپردیش اسمبلی کی موجودہ صورتحال کے مطابق راجیہ سبھا کی اس ریاست سے خالی ہوئی 9 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں بھاجپا کو مل سکتی ہیں جبکہ 2 اپوزیشن پارٹیوں کے پاس جاسکتے ہیں۔ اکثریت کی کمی میں سرکار کو ایوان بالا میں کئی اہم ترین بلوں کو پاس کرانے میں مشکل آتی ہے۔ قابل ذکر ہے ایوان بالا ایک مستقل ایوان ہے جس میں ہر دو برس کے اندر دو تہائی ممبران کی میعاد پوری ہوجاتی ہے۔ کل ملا کر اپریل کے بعد راجیہ سبھا کی تصویر بدلے گی اور سرکار کو راجیہ سبھا میں درکار تعداد میں ممبران کی کمی سے جو مشکل ہوتی ہے وہ دور ہوجائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟