چھوٹی ریاستیں تو ہیں چناؤ سے بڑے سندیش نکلیں گے

عام طور پر کم مقبول رہنے والی نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کے چناؤ اس بار زیادہ سرخیوں کاباعث بن سکتے ہیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک کے چناؤ کو دیکھتے ہوئے یہ فروری میں ہونے جارہے ہیں۔ تریپورہ ،میگھالیہ اور ناگالینڈ کے چناؤ بھاجپا حکمراں ریاستوں کی تعداد بھی بڑھا سکتے ہیں یا کانگریس کے لئے حوصلہ افزا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ ویسے نارتھ کی ساری ریاستیں چھوٹی ہیں پھر بھی اس وقت ان کی سیاسی نقطہ نظر سے کافی اہمیت ہے۔ کیرل کے بعد مارکسوادی پارٹی کی قیادت میں تریپورہ میں دوسری حکومت ہے۔ پچھلے پانچ برسوں سے وہاں مارکسوادی پارٹی کی قیادت والی لیفٹ جماعت ہی چناؤ میں کامیاب ہوتی آرہی ہے۔ نارتھ ایسٹ کی تین ریاستوں کے اسمبلی چناؤ دیش کی تینوں سیاسی پارٹیوں بھاجپا، کانگریس اور مارکسوادی پارٹی کے لئے بیحد اہم ہیں۔ نارتھ ایسٹ میں تیزی سے بڑھ رہی بھاجپا ان تینوں ریاستوں میں بھی اپنی پکڑ بنانے کی تیاری میں ہے۔ وہ تینوں ریاستوں میں مقامی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے فراق میں ہے۔ وہیں کانگریس و مارکسوادی پارٹی کے سامنے اپنی سرکاریں بچانے کی چنوتی ہے۔ مشن 2019 کے پیش نظر ان تینوں ریاستوں میں لوک سبھا کی سیٹیں تو محض پانچ ہی ہیں لیکن ان ریاستوں کے نتیجوں کی سیاسی اہمیت زیادہ ہے۔ مرکز میں آنے کے بعد بھاجپا میں نارتھ ایسٹ میں تیزی سے پاؤں پھیلائے ہیں۔ سکم سمیت 8 ریاستوں میں سے آسام ، آروناچل اور منی پور میں اس کی حکومتیں ہیں۔ بھاجپا کے منصوبہ کافی اونچے ہیں ۔ اس کے ایک بڑے لیڈر نے کہا کہ وہ لوک سبھا چناؤ سے پہلے نارتھ ایسٹ میں این ڈی اے کی سبھی 8 ریاستوں میں اقتدار کے ساتھ جانے کی کوشش کریں گے۔ تریپورہ میں دیش میں پہلی بار کسی ریاست میں حکمراں لیفٹ پارٹی ، مارکسوادی پارٹی و ساؤتھ پنتھی بھاجپا کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے کیونکہ تریپورہ مارکسوادی پارٹی کا گڑھ رہا ہے اور وہ 1978 کے بعد سے 40 سال میں محض 5 سال 1988 سے 1993 کے درمیان ہی اقتدار سے باہر رہی ہے۔ سال 2013 کے چناؤ میں مارکسوادی پارٹی کو 60 میں سے 49 سیٹیں ملی تھیں لیکن اس بار تجزیئے بدلے ہوئے ہیں۔ بھاجپا کی کوشش اس لیفٹ گڑھ کو ڈھانے کی ہے۔ ناگالینڈ میں بھاجپا کی اتحادی این پی ایف اقتدار میں ہے اور دونوں پارٹیاں پھر سے مل کر چناؤ لڑنے جارہی ہیں۔ اگر لیفٹ گڑھ بچانے میں کامیاب رہی تو وہ مودی سرکار کے خلاف ناکہ بندی کے لئے زیادہ سرگرم ہوں گے۔ کانگریس کے سامنے اہم چنوتی تو کسی طرح میگھالیہ کی سرکار بچانے کی ہے کوئی پارٹی جیتے یا ہارے دیش تو یہی مانے گا چاہے گا کہ چناؤ پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہی اصولوں سے بندھے ہوئے ہوں۔ نیتاؤں کے بیان سرحدوں سے باہر نہ جائیں اور سیاسی تلخی نہ ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟