آدھار کی ضرورت کا سوال

پچھلے کافی وقت سے آدھار یعنی مخصوص پہچان نمبر سے جڑی تفصیلات محفوظ ہونے کو لیکر برابر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ آدھار کی ضروریت اور سیکورٹی کو لیکر دائر مقدموں کی سماعت سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔لیکن اس بیچ کئی ایسی خبریں آئی ہیں جن سے لگتا ہے کہ آدھار اور اس سے وابستہ جانکاریاں محفوظ نہیں ہیں۔ آدھار کارڈ کی ضروریت کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کے دوران عرضی گذار کی طرف سے پیش ہوئے وکیل نے کہا کہ ہمارے دیش میں حالات ایسے بنا دئے گئے ہیں کہ بغیر آدھار کارڈ کے شہری کے طور پر عاپ زندہ نہیں رہ سکتے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی آئینی بنچ کے سامنے وکیل دیوان نے بمبئی ہائی کورٹ کے 2014 کے حکم کا تذکرہ کیا جس میں ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ مجرمانہ معاملوں میں وہ بایو میٹرک ڈاٹا شیئرکریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب بینک اکاؤنٹ ،موبائل نمبر،انشورینس پالیسی اور ٹرانزیکشن کیلئے ضروری کردیا گیا ہے۔ دیش میں کئی ایسے لوگ ہیں جو آدھار کارڈ کو بنوانے کے لئے آدھار کارڈ تک نہیں پہنچ پاتے۔ لوگ تین یا چار بار مسلسل فنگر پرنٹ دیتے ہیں ، ان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ پہلی بار میں صحیح ویری فکیشن ہواہے یا نہیں۔ ایسے میں اس بات کا بھی اندیشہ رہتا ہے کہ ان کے اکاؤنٹ کو خالی نہ کردیا گیا ہو؟ سپریم کورٹ میں دوسرے دن آدھار معاملہ کے دوران فنگر پرنٹ فول پروف نہیں ہونے کا معاملہ اٹھا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی سرکار کے دعوے پر رائے زنی کی۔ اس نے کہا کہ سرکار کئی بار دعوی کرچکی ہے۔ شخصی ڈاٹا کو راز میں رکھا جائے گا لیکن حال میں دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک کرکٹر کا ڈاٹا لیک ہوگیا۔ وکیل شام دیوان نے دلیل دی تھی کہ فنگر پرنٹ فول پروف نہیں ہیں۔ جسٹس وائی چندرچوڑ نے رائے دی کہ چار پانچ سال میں فنگر پرنٹ پہچان کے لائق نہیں رہ جاتا۔ انہوں نے ڈاٹا لیک پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ایک کرکٹر کا ڈاٹا لیک ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔جسٹس اے ۔ کے۔ سیکری اور جسٹس چندر چوڑ کے سوا ل پر دیوان نے دلیل دی کہ جب ہم بینک یا دیگر کسی سروس پروائڈر کے سامنے دستاویز یا ڈاٹا دیتے ہیں تو ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم کسے ڈاٹا دے رہے ہیں۔ آدھار کے لئے جو پرائیویٹ کمپنیاں ڈاٹا لیتی ہیں ان کے بارے میں عام آدمی جانتے تک نہیں ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستانی مخصوص پہچان اتھارٹی کی توجہ میڈیا کی رپورٹوں سے جنتا کی شکایتوں کی طرف گئی ہے۔ اور آدھار کی ویری فکیشن کے لئے انگلیوں کے نشان ، آنکھ کی پتلی کے ساتھ انسان کے چہرے کو بھی شامل کرلیاگیا ہے۔ یہ فیصلہ یقینی طور پر دیش کے بزرگ ، بیمار اور محنت کش عوام کے حق میں ہے۔ یہ معاملہ بیحد سنگین ہے۔ سپریم کورٹ میں پورے آدھار پروجیکٹ کو چنوتی دی گئی ہے۔ کوئی بھی جمہوری سماج اس طرح کے چلن کو قبول کرنے سے گھبرائے گا۔بایومیٹرک ڈاٹا پر بیرونی ممالک میں فیصلہ شہریوں کے حق میں گیا ہے۔ اگر سرکاری اسکیم کو منظوری دی جاتی ہے تو شہریوں کا آئین نہیں بلکہ سرکار کا آئین جیسا ہوگا۔ وکیل دیوان نے کہا کہ آدھار کارڈ آئینی ہے یا نہیں یہ آئینی بنچ کو طے کرنا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟