آپ کا کیا ہوگا جناب عالی

عام آدمی پارٹی کے 20 ممبران کو چناؤ کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا ہے اور صدر جمہوریہ نے چناؤ کمیشن کی سفارش کو منظوری دے دی ہے۔ پارٹی کے پاس صرف کورٹ میں راحت کی امید بچی ہے۔ پارٹی کو دہلی ہائی کورٹ سے فوری راحت نہیں ملی لیکن وزیرا علی اروند کیجریوال کی مصیبتیں یہیں ختم نہیں ہوئیں ہیں۔ پارٹی کے 20 ممبران کو اس معاملہ کے علاوہ ایک اور کیس میں 27 ممبران کے خلاف بھی مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ معاملہ بھی آفس آف پرافٹ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ معاملہ عام آدمی پارٹی کی مختلف سرکاری اسپتالوں میں مریض کلیان کمیٹی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ شکایت22 جون 2016 کو اس وقت کے صدر پرنب مکھرجی سے کی گئی تھی۔ وکیل کشور آنند نے اپنی اس شکایت میں کہا تھا کہ عاپ سرکار نے 27 ممبران کو دہلی کے مختلف سرکاری اسپتالوں کی روگی کلیان کمیٹی کا چیئرمین بنایا ہوا ہے جو آفس آف پرافٹ کا عہدہ ہے۔ انہوں نے عاپ کے ان ممبران کی ممبری ختم کئے جانے کی مانگ کی تھی۔ شکایت کے مطابق ممبران اسمبلی قانون سے کسی چھوٹ کے بغیر دہلی کے سرکاری اسپتالوں میں روگی کلیان سمیتیوں کے چیئرمین کے عہدوں پر نہیں بیٹھ سکتے۔ روگی کلیان سمیتی ایک طرح کی سوسائٹی یا این جی او ہے جو اسپتال کے انتظام کو دیکھتی ہے۔ اس میں ممبر اسمبلی چیئرمین نہیں ہوسکتا۔ اس پر چناؤ کمیشن نے 2016 میں 27 ممبران کو نوٹس جاری کر11 نومبر تک جواب مانگاتھا۔ کمیشن نے جانچ میں پایاتھا پارلیمنٹری سکریٹری بنائے گئے ممبران میں سے 11 روگی کلیان سمیتی کے چیئرمین بھی ہیں۔اپنے 20 ممبران کو آفس آف پرافٹ کے معاملے میں نا اہل قرار دئے جانے کولیکر عام آدمی پارٹی بھلے ہی چناؤ کمیشن اور اپوزیشن پارٹیوں پر سیاسی بندوق تان رہی ہو لیکن پارٹی کے اندر خانے زبردست کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ کمیشن کی سفارش کے دائرے میں آئے تمام ممبر اسمبلی سکتے میں ہیں تو دوسری طرف پارٹی کے باغی ممبران اسمبلی کو یہ احساس دلانے کی پوری کوشش ہورہی ہے کہ اس کی اکلوتی وجہ وزیر اعلی اروند کیجریوال کی زد اور اپنے مخالفین کو نپٹانے کی خاطر کئے گئے الٹے سیدھے فیصلے ہیں۔ادھر صدر کے ذریعے 20 ممبران اسمبلی کی ممبر شپ ختم کئے جانے کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا سپریم کورٹ ممبران اسمبلی کی سماعت کرسکتا ہے اور کیا ممبری گنوا چکے ممبران کو اسٹے مل سکتا ہے؟ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کسی بھی شخص کو کورٹ میں اپیل کرنے کا آئینی حق ہے لیکن بڑا سوال یہی ہے کہ کیا ممبران اسمبلی کو کورٹ سے اسٹے مل سکتا ہے؟ ممبری گنوائے عاپ کے ایم ایل اے اور پارٹی کے نیتا صدر اور سینٹرل چناؤ کمیشن کے قدم کو جانبدارانہ بتا رہے ہیں۔ان کا الزام ہے کہ ممبران اسمبلی کا موقف جانے بینا یکطرفہ فیصلہ لیا گیا اس لئے وہ ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے اور انصاف کی مانگ کریں گے۔ آئینی ماہرین و لوک سبھا کے سابق سکریٹری ایس کے شرما کا کہنا ہے کہ جو شخص اپنے کو متاثر مانتا ہے اسے کورٹ جانے کا آئینی حق ہے۔ امکان ہے کہ سپریم کورٹ معاملہ کی سماعت کرلے لیکن پھر بھی اس کا امکان کم نظر آرہا ہے کورٹ سے ان کو راحت مل پائے۔ اصل میں اس مسئلے کو لیکر ممبر اسمبلی پہلے سے ہائی کورٹ جا چکے ہیں اور وہاں سے انہیں ریلیف نہیں ملی اس لئے کم ہی آثار ہیں کہ اب سپریم کورٹ انہیں اسٹے دے دے۔ ممبران کی ممبری چھن جانے میں رول ادا کرنے والے ہائی کورٹ کے وکیل پرشانت پٹیل مانتے ہیں کہ معاملہ آفس آف پرافٹ سے جڑا ہے جس میں کورٹ کا کوئی روڈ نہیں ہوتا۔ صدر یا چناؤ کمیشن ہی انہیں دیکھتا ہے۔ پٹیل کے مطابق ممبران کے لئے راحت کے سبھی دروازہ بند ہوچکے ہیں۔ وزیر اعلی اروند کیجریوال کے لئے آنے والے دن اور بھی چیلنج بھرے ہونے کا امکان ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟