اور اب دنیا کا سب سے بڑا سائبر حملہ
جمعہ کو شروع ہوئے سب سے بڑے سائبر حملہ نے دنیا میں کھلبلی مچا دی ہے۔ اس میں رین سمویچر نامی سافٹ ویئر اور وناکرئی وائرس کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہیکرس اس کے ذریعے آن لائن زر فدیہ لیکر کمپیوٹر کو اپنے شکنجے سے چھوڑتے ہیں۔100 سے زیادہ دیش جس میں بھارت بھی شامل ہیں ، اس سے متاثر ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے یہ حملہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی سے چرائے ہوئے سائبر ہتھیار ’انٹرنل بلو‘ سے کیا گیا ہے۔ اسے وناکرئی رین سمویچر نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس سائبر حملہ کے بارے میں سب سے پہلے سوئڈن ،برطانیہ اور فرانس میں پتہ چلا۔اس کے بعد اس کا دائرہ اور بڑھتا گیا۔رین سم ویچر سے سافٹ ویچر کے ذریعے ہیکرس کمپیوٹر پر حملہ کرتے ہیں۔ اسے ای میل سے لنک کے ذریعے بھیجا جاتا ہے ۔ لنک پر کلک کرنے پر کمپیوٹر لاک ہوجاتے ہے۔ اسکرین پر ایک ڈائیلاگ باکس کھلتا ہے ،لاک کو کھولنے کے لئے آن لائن پھروتی مانگی جاتی ہے، نہ دینے پر کمپیوٹر ڈاٹا اڑادیا جاتا ہے۔ یہ رین سمویچر کا خاص وائرس ہے۔ جمعہ کو سائبر حملہ کے لئے اسی کا استعمال کیا گیا۔ یہ خاص کر ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کو نشانہ بناتا ہے۔ مانا جارہا ہے کہ یہ سائبر حملہ شیڈوبروکرس نامی گروپ نے انجام دیا ہے۔ گروپ نے 14 اپریل کو ہی اس وائرس کی جانکاری آن لائن کردی تھی۔ یہ وہی گروپ ہے جس نے پچھلے سال دعوی کیا تھا کہ اس نے این ایس اے کا سائبر ہتھیار انٹرنل بلو چرالیا ہے۔ دراصل انٹرنل بلو کو امریکی سکیورٹی ایجنسی این ایس اے نے دہشت گردوں اور دشمنوں کے ذریعے استعمال کئے جانے والے کمپیوٹروں میں سیند لگانے کے لئے بنایاتھا۔ امریکہ نے کبھی یہ نہیں قبول کیا کہ شیڈو بروکرس کے ذریعے لیک کیا گیا مال ویئر این ایس اے یا دیگر کسی امریکی خفیہ ایجنسی سے وابستہ ہے۔ مائکروسافٹ کے ترجمان نے بتایا کمپنی حالات سے نمٹنے کے اقدام پر کام کررہی ہے۔ مال ویئر سے بچانے کو آٹومیٹک ونڈو اپ ڈیٹ پش کررہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملہ کے پیچھے کسی خاص دیش کے بجائے جرائم پیشہ گروہ ہے۔ روس ، چین، یوکرین، تائیوان سے ہیکروں کے گروہ پر شبہ ہے۔ یوروپی فیڈریشن نے ان کی تلاش میں ایک ٹاسک فورس بنائی ہے۔ الزام ہے ان ہیکرس کی خدمات امریکی چناؤ کو متاثر کرنے کے لئے دی جاچکی ہے۔ نظر میں نارتھ کوریا کے ہیکرس بھی ہیں جنہوں نے حا ل ہی میں دعوی کیا تھا دیش کے نیوکلیائی پروگرام کی فنڈنگ کے لئے ان کی نظر 18 دیشوں کے بینکوں پر ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں