نکسلی مسئلہ دہشت گردی سے بڑا و دیش کیلئے چیلنج

مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے ساتھ حال ہی میں ہوئی نکسلی متاثرہ 10 ریاستوں کے وزرائے اعلی کی میٹنگ میں کئی اہم مسئلوں پر بات چیت ہوئی کچھ بنیادی سوال بھی اٹھے۔برکاپال نکسلی حملہ کے بعد مرکزی وزیر مملکت داخلہ ہنسراج اہیرسکما ضلع کے پولب پلی علاقہ میں پہنچے۔ دو گھنٹے تک جوانوں اور افسروں کے درمیان رہنے کے بعد اخبار نویسوں کو بتایا کہ ضلع میں ہزاروں کی تعداد میں تعینات فورس ہے اس کے باوجود یہاں نکسلی کرتوت بڑھی ہیںیہ باعث تشویش ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ نکسلیوں نے سکما ضلع کے ایک بڑے علاقہ میں اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے اور آدی واسیوں کو یرغمال بنا کر انہیں اپنے مطابق زندگی جینے پرمجبور کررہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے یکا یک نکسلی سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں۔ خبر ملی ہے کہ نکسلی تنظیموں کو جرمنی ، فرانس ،اٹلی، بلجیم، فلپین ، ہالینڈ اور ترکی جیسے ملکوں سے ماؤوادی تنظیموں سے بھی مدد ملتی ہے۔ بھارت ان دیشوں سے اتنے اچھے رشتوں کا استعمال کرے ایسے عناصر پر نکیل کسنے کو کہے ۔ نکسلیوں کی جڑ پر حملہ کرنے کے لئے بھارت سرکار کو ان ملکوں سے رابطہ قائم کر جو نکسلیوں کو آئیڈیالوجی کی خوراک اور اخلاقی حمایت کرتے ہیں،نکسلیوں کو ہتھیار سپلائی کرنے والے شخص کو تو حال ہی میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے آل پارٹی میٹنگ میں مرکزی سرکار کی پالیسیوں کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ نکسلی مسئلہ کے سلسلے میں مرکز کا رول صرف جائزہ لینے تک محدود ہے۔ نکسلواد سے لڑنے کے لئے اگر ریاستی حکومتوں کو کوئی پوری حکمت عملی بنانی ہے اور اس کے لئے اپنے وسائل کا استعمال کرنا ہے تو پھر مرکز کا کیا رول رہ جاتا ہے؟ یہ بھی سچ ہے کہ نکسلی متاثرہ ریاستی حکومتیں اپنی اپنی سطح پر فیصلے لیتی ہیں اور اس تشدد سے لڑتی ہیں۔ دراصل اس کے پیچھے ایک سچائی یہ بھی ہے کہ نکسلی مسئلے کو قانون و نظم سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے اور آئینی سسٹم آئین کی فہرست میں ہے لہٰذا ریاستوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نکسلی مسئلہ پر موثر طریقے پر کنٹرول کریں۔ البتہ اس سسٹم کے رہتے مرکزی سرکار کوئی پختہ کردارنہیں نبھا سکتی اس لئے اس بات پر شبہ کی زیادہ گنجائش ہے کہ یونیفائڈ کمان کا قیام اور مشترکہ حکمت عملی بنانے کی تجویز شاید ہی پروان چڑھ سکے۔ حالانکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر مرکزی سرکار دیش کی ایکتا اور سرداری کے لئے نکسلواد کو دہشت گردی سے زیادہ بڑا خطرہ مانتی ہے تو اس معاملہ کو ریاستی سرکاروں کے پالے میں ڈالنے کے بجائے سیدھے طور پر مرکز کو اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہئے۔ یونیفائیڈ کمان ، مشترکہ حکمت عملی اور سینٹرل سکیورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے درمیان بہتر تال میل بنانے کی سخت ضرورت ہے اور اسے قانون و نظام کا معاملہ نہ سمجھا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟