اگربسپا بکھراؤ کی جانب ہے تو ذمہ دار خود مایاوتی ہیں

سیاست میں پرانی کہاوت ہے کہ نہ کوئی مستقبل دوست ہے اور نہ کوئی مستقل دشمن۔ اگر مستقل ہے تو وہ خود کا مفاد ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھارت کی سیاست میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا اور یہ بات بہوجن سماج پارٹی پر کھری اترتی ہے۔ تقریباً تین دہائیوں سے بہن جی کے قریبی رہے نسیم الدین صدیقی کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ اترپردیش میں اپنی رہی سہی ساکھ بچانے میں لگی بہوجن سماج پارٹی اور اس کی چیف مایاوتی کو کرارا جھٹکا قد آور لیڈر نسیم الدین صدیقی نے اپنے اخراج کے دوسرے دن الزام لگایا کہ مایاوتی کی 50 کروڑ روپے کی مانگ پوری نہ کر پانے پر انہیں پارٹی سے نکالا گیا۔ صدیقی نے یہاں تک کہہ دیا کہ مایاوتی مسلم فرقہ کے تئیں نفرت رکھتی ہیں اور اس وقت پوری پارٹی جنرل سکریٹری ستیش چندر مشرا کی جاگیر بن گئی ہے۔ صدیقی نے پریس کانفرنس کرکے مایاوتی سے بات چیت کے کچھ آڈیو کلپ بھی جاری کئے تھے اور دعوی کیا ان کے پاس ایسی ڈیڑھ سو آڈیو کلپ ہیں جن کے سامنے آنے سے بھونچال آجائے گا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد مایاوتی نے صدیقی کو ٹیپنگ بلیک میلر بتا کر پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ اس نے پارٹی کے چندے کی بڑی رقم ڈکار لی ہے۔ فطری ہے کہ اپنے بھروسے مند سے اس طرح کے الزامات اور فون ٹیپنگ کے آڈیو اسٹنگ سے مایاوتی پریشان ہو اٹھیں لیکن بسپا کی فطرت رہی ہے کہ ایسے الزام یا تہمت جھیلنے کی۔ اس لحاظ سے یہ کوئی نیا اور چونکانے والا واقعہ نہیں ہے۔ چار بار اترپردیش کے وزیر اعلی رہیں مایاوتی کے بارے میں اپوزیشن سے زیادہ خود انہی کی پارٹی کے لوگ ایسے الزام لگاتے رہے ہیں۔ دراصل پارٹی کے اندر مالی لین دین اور حساب کتاب کا کبھی کوئی مثالی سسٹم قائم نہیں ہوپایا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے الزامات کی زد میں مایاوتی آتی رہی ہیں۔ بسپا کا گراف مسلسل گرتا جارہا ہے۔ اترپردیش میں چار بار سرکار بنا چکی اور قومی سطح کی پارٹی رہ چکی بسپا کی درگتی تب شروع ہوئی جب 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں اسے ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ کبھی اکیلے دم پر اکثریت کی سرکار بنا چکی اس پارٹی کی حالت 2017ء کے اسمبلی چناؤ میں اور خستہ ہوگئی جب 403 اسمبلی چناؤ میں صرف اسے 19 سیٹیں ہی ملیں لیکن بسپا کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کوئی تعجب نہیں ہے۔ یہ پارٹی چیف مایاوتی کے طریقہ کار کا نتیجہ ہے جسے پارٹی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
80 کی دہائی میں دلت سماج کو یکجا کرکے سورگیہ کانشی رام نے جس بہوجن سماج پارٹی کو بنایا تھا اسے بہت جلد مایاوتی نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے بعد پارٹی میں ابھرتے کسی بھی طاقتور لیڈر کو انہوں نے برداشت نہیں کیا اور ہرکسی کو جب چاہا ،جیسا چاہا استعمال کیا اور اسے قانونی جال میں پھنسنے پر فوراً اس سے پیچھا چھڑا لیا۔ بسپا کی حالت کی ایک وجہ یہ بھی ہے پارٹی میں اندرونی جمہوریت کی زبردست کمی رہی ہے اور اس میں حقیقت میں دوسری لائن کا لیڈر کوئی بھی نہیں ہے لہٰذا پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں اور مالی انتظام مایاوتی اور ان کے بھروسے مند ساتھیوں کے آپسی اعتماد سے ہی چلتے ہیں۔نسیم الدین کے خلاف کی گئی کارروائی کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسمبلی چناؤ میں 98 مسلم امیدوار اتارکر کی گئی غلطی کو وہ درست کرنا چاہتی ہوں کیونکہ اس سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹے اس پر مسلم خوش آمدی کا ٹھپہ لگا گیا۔ خود کو پریوار واد کی کٹر مخالف بتانے والی پارٹی چیف کا پچھلے دنوں اپنے بھائی کو قومی نائب پردھان بنانا اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کو اب اپنے پر اتنا بھروسہ نہیں رہا۔ظاہر ہے کہ بسپا کا بحران تنظیمی سطح پر اتنا نہیں ہے جتنا اخلاقیات پر ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟