جیلوں سے چلتی مافیا و جرائم پیشہ کی سلطنت
بہار میں جیل میں بند مافیہ شہاب الدین کی آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو سے فون پر ہوئی بات چیت نے بھلے ہی سیاسی دنیا میں کھلبلی مچا دی ہو لیکن یہ مسئلہ صرف بہار تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دیگر ریاستوں کی جیلوں میں بھی بند مافیا سرغنہ بھی اپنا سامراجیہ جیل کے اندر سے ہی چلاتے ہیں۔ جیلوں میں موبائل فون کا استعمال ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بیشک جیلوں کے انتظامیہ نے اسے روکنے کے لئے جیمر لگانا شروع کردئے ہیں لیکن جرائم پیشہ نے اس کی بھی کاٹ نکال لی ہے۔ یہ جیمر 4 جی نیٹ ورک کے لئے کارگر نہیں ثابت ہوسکے۔ آپ اترپردیش کی ہی مثال لے لیجئے۔مافیا ڈان مختار انصاری ہوں یا اس کا مخالف برجیش سنگھ، منا بجرنگی ہو یا سبھاش ٹھاکر یا دوسرے جرائم پیشہ افراد سلاخوں کے پیچھے سے ان کی حکومت چلتی ہے۔
سیاست کے گٹھ جوڑ سے لیکر سرکاری ٹھیکوں میں بھی دخل اور دشمنوں سے نمٹنے کیلئے سارے پلان جیل کے اندر ہی تیار ہوتے ہیں اور باہر ان کے گرگے ان پر عمل کرتے ہیں۔ بڑے مافیا جیل کے اندر سے فون کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ریلوے ، سنچائی اور پی ڈبلیو ڈی میں ٹھیکوں کے لئے ان کا استعمال ہوتا ہے ساتھ ہی رنگداری نہ دینے والے کاروباریوں کو سبق سکھانے کے لئے جیل سے ہی اپنے شوٹروں کو ہدایت دیتے ہیں۔ کارروائی کا جہاں تک سوال ہے یہ تو بس برائے نام خانہ پوری ہوتی ہے۔ ایس ٹی ایف کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ جیلوں میں جیمر کے باوجود جرائم پیشہ 4 جی نیٹ ورک کے سہارے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سہولت کا فائدہ لیتے ہوئے وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول یا واٹس اپ کال کا استعمال کررہے ہیں جسے فیس کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔پچھلے سال دسمبر میں لکھنؤ جیل میں جیمر لگائے جانے کی کارروائی شروع ہوئی تو مختار انصاری نے جیمر لگانے والی کمپنی اور اس کے ٹکنیشینوں کو فون پر انجام بھگتنے کی دھمکی دے ڈالی۔ بعد میں جیل محکمہ نے مقامی پولیس کی مدد سے جیل میں جیمر لگوایا اور جیمر لگوانے والے انجینئر کو کچھ دنوں کے لئے یوپی سے باہر رہنے کی زبانی ہدایت بھی دے دی۔
سرکار بدلنے پر مختار انصاری، منا بجرنگی سے لیکر 40 سے زیادہ چھوٹے بڑے جرائم پیشہ کو دوسری جیلوں میں شفٹ کیا گیا۔ اے ڈی جیل ، جی ایف مینا کہتا ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کے ذریعے موبائل کے استعمال پر پوری طرح روک لگانے کے لئے کارروائی کی جارہی ہے۔ کافی حد تک لگام بھی لگی ہے۔ سبھی جیلوں میں جیمر لگائے جارہے ہیں۔ مشکل یہ بھی ہے کہ یہ مافیا جیل میں تعینات پولیس ملازمین کو بھی انجام بھگتنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
سیاست کے گٹھ جوڑ سے لیکر سرکاری ٹھیکوں میں بھی دخل اور دشمنوں سے نمٹنے کیلئے سارے پلان جیل کے اندر ہی تیار ہوتے ہیں اور باہر ان کے گرگے ان پر عمل کرتے ہیں۔ بڑے مافیا جیل کے اندر سے فون کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ریلوے ، سنچائی اور پی ڈبلیو ڈی میں ٹھیکوں کے لئے ان کا استعمال ہوتا ہے ساتھ ہی رنگداری نہ دینے والے کاروباریوں کو سبق سکھانے کے لئے جیل سے ہی اپنے شوٹروں کو ہدایت دیتے ہیں۔ کارروائی کا جہاں تک سوال ہے یہ تو بس برائے نام خانہ پوری ہوتی ہے۔ ایس ٹی ایف کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ جیلوں میں جیمر کے باوجود جرائم پیشہ 4 جی نیٹ ورک کے سہارے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سہولت کا فائدہ لیتے ہوئے وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول یا واٹس اپ کال کا استعمال کررہے ہیں جسے فیس کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔پچھلے سال دسمبر میں لکھنؤ جیل میں جیمر لگائے جانے کی کارروائی شروع ہوئی تو مختار انصاری نے جیمر لگانے والی کمپنی اور اس کے ٹکنیشینوں کو فون پر انجام بھگتنے کی دھمکی دے ڈالی۔ بعد میں جیل محکمہ نے مقامی پولیس کی مدد سے جیل میں جیمر لگوایا اور جیمر لگوانے والے انجینئر کو کچھ دنوں کے لئے یوپی سے باہر رہنے کی زبانی ہدایت بھی دے دی۔
سرکار بدلنے پر مختار انصاری، منا بجرنگی سے لیکر 40 سے زیادہ چھوٹے بڑے جرائم پیشہ کو دوسری جیلوں میں شفٹ کیا گیا۔ اے ڈی جیل ، جی ایف مینا کہتا ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کے ذریعے موبائل کے استعمال پر پوری طرح روک لگانے کے لئے کارروائی کی جارہی ہے۔ کافی حد تک لگام بھی لگی ہے۔ سبھی جیلوں میں جیمر لگائے جارہے ہیں۔ مشکل یہ بھی ہے کہ یہ مافیا جیل میں تعینات پولیس ملازمین کو بھی انجام بھگتنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں