ان چھاپوں کا نشانہ صرف اپوزیشن پر کیا

منگلوار کو چھاپوں کا دن رہا اور یہ بڑی سیاسی جنگ کا اشارہ دے رہے ہیں۔ صبح خبر آئی سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم اور ان کے بیٹے کارتی چدمبرم کے گھروں پر چھاپے پڑے ہیں۔ ان دونوں کے خلاف کرپشن سے وابستہ معاملوں میں سی بی آئی کافی عرصے سے جانچ کررہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد خبر آئی کے انکم ٹیکس محکمے نے بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادو کے بے نامی سودوں کا پتہ لگانے کے لئے دہلی اور گوڑ گاؤں میں 20 سے زیادہ جگہوں پر چھاپے مارے ہیں۔ ان چھاپوں کے فوراً بعد پی چدمبرم نے الزام لگایا کہ مرکزی سرکار کے خلاف آواز اٹھانے کے سبب یہ چھاپے مارے گئے ہیں۔ میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میں بولنا اور لکھنا جاری رکھوں گا۔ ان کے بیٹے کارتک نے کہا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ کانگریس نے کہا ان کا یا اپوزیشن کا کوئی بھی لیڈر بدلے اور رقابت کی سیاست کے آگے نہیں جھکے گا۔ پارٹی نے یہ بھی کہا کہ یہ بھاجپا سرکار کی ڈی این اے بن گئی ہے۔ ادھرلالو انکم ٹیکس چھاپوں کے بعد ناراض ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ بھاجپا کو نئے دوست مبارک ہوں۔ ان کے اس ٹوئٹ سے سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیوں کا دور شروع ہوگیا ہے۔ بہار میں اتحاد خطرے میں ہے۔ حالانکہ لالو نے صاف کیا اتحاد کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن سیاسی حلقے محسوس کرتے ہیں کہ اتحاد میں دراڑ گہری ہوچکی ہے اور یہ بھی کہا کہ میں ان چھاپوں سے مرکزی سرکار کی ان حرکتوں سے ڈرنے والا نہیں۔ دراصل یہ کارروائی بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کے اس بیان کے ٹھیک ایک دن بعد ہوئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر لالو کے خلاف شکایت ہے تو اس پر کارروائی کرنے کی ذمہ داری سینٹرل ایجنسیوں کی ہے۔ خبر ہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم اور ان کے بیٹے کارتی کے کالے کارناموں کے سارے دستاویز ایک برس پہلے ہی سی بی آئی کو دستیاب کرا دئے تھے۔ مگر کارروائی سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما کی قیادت میں منگلوار کو کی گئی۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر نے تو ان دستاویزات کو دیکھا تک نہیں تھا۔ ابھی ایسا تذکرہ ہے کہ سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر اس معاملے میں سابق وزیر خزانہ چدمبرم اور ان کے خاندان کو بچا رہے تھے۔ اپوزیشن نے اسے بدلے کی کارروائی بتایا تو حکمراں پارٹیوں نے کہا کہ قانون اپنا کام کررہا ہے اور کسی نے بھی غلط کام کیا ہے تو اسے بخشا نہیں جائے گا۔ سیاست کرنے والوں کے اس رخ کو چھوڑدیں تو جنتا کے درمیان ایسے معاملوں میں عام طور پر دو طرح کے رد عمل ہوتے ہیں ایک تو لوگ اسے اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ سرکاری محکمہ ایسی کارروائی اس کے خلاف کرتے ہیں جو حکمراں گٹھ جوڑ کا حصہ نہیں ہیں، اپوزیشن میں رہ چکے ہیں یا سرکار کے بڑے نکتہ چینی کرنے والے ہیں۔اس کیس میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدارتی چناؤ میں خودساختہ اپوزیشن اتحاد کو توڑنے کیلئے بھی یہ کارروائی ہوئی ہے۔ دوسرے رد عمل میں لوگ مانتے ہیں کہ ایسے معاملوں میں فوری طور پر سنسنی بھلے ہی پھیل جائے لیکن وہ انجام تک نہیں پہنچتی۔ لالو یادو کے خلاف چارہ گھوٹالہ کے معاملے میں انجام تک ضرور پہنچے لیکن اس میں کسی سرکار کی بجائے عدالت کا رول تھا۔ مودی سرکار اگر یہ دکھانا چاہتی ہے کہ قانون سے کوئی نہیں بچ سکتا چاہے وہ کتنا بڑا ہو، کوئی بھی ہو تو یہ اچھی بات ہے، تو اسے چاہئے کہ وہ صرف ان معاملوں کو وقت رہتے انجام تک پہنچانا چاہتی ہے بلکہ بار بار اسے دکھانا ہوگا کہ وہ بدلے کے جذبے سے کام نہیں کررہی ہے۔ بیشک مودی سرکار کی ساکھ بھلے ہی ٹھیک ہو لیکن اس کی جانچ ایجنسیاں جیسے سی بی آئی کی ساکھ اتنی اچھی نہیں ہے۔ پنجرے میں بند طوطے کو ایک آزاد اور غیر منصفانہ ساکھ والی ایجنسی میں بدلا اس دیش کی سب سے بڑی چنوتی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ رابرٹ واڈرا ، بھوپندر سنگھ ہڈا، ویر بھدر سنگھ ، پی چدمبرم و لالو پرساد یادو سب آج کٹہرے میں کھڑے نظر آرہے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟