مودی کی لہر میں بہہ گئیں علاقائی پارٹیاں

دہلی کی تینوں میونسپل کارپوریشنوں کے چناؤ نتائج اعدادو شمار کی زبانی بھی بہت کچھ بیان کر گئے۔ مودی لہر میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی تو پھسڈی ثابت ہوئی ہی، قومی سیاست میں اپنا دخل رکھنے والی علاقائی پارٹیاں تو بہہ ہی گئیں۔ جنتا دل (یو) ، لوجپا، این سی پی اور راشٹریہ لوکدل کو جہاں ایک بھی سیٹ نہیں ملی وہیں بسپا، سپا، انیلو بھی بس کھال بچا سکی ہیں۔ چناؤ نتائج نے صاف کردیا ہے کہ عوام اب صرف کام چاہتی ہے۔ کاغذی یا کھوکھلے وعدوں پر اسے بیوقوف بنانے کا وقت چلا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اترپردیش میں ، جنتادل یونائیٹڈ اور راشٹریہ جنتادل بہار میں، انڈین نیشنل لوک دل ہریانہ میں، شیو سینا اور نیشنل کانگریس پارٹی مہاراشٹر میں ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیااور مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی پشچمی بنگال میں خاصہ رسوخ رکھتی ہیں۔ ان پارٹیوں کے بڑے نیتا ملائم سنگھ یادو ،اکھلیش یادو ، مایاوتی، نتیش کمار، لالو پرساد یادو، اوم پرکاش چوٹالہ، سیتا رام یچوری ، ڈی راجہ، شرد پوار و ادھو ٹھاکرے کا ملک کی سیاست میں بھی بڑا نام ہے۔ باوجود اس کے دہلی میونسپل کارپوریشن چناؤ میں ان کا سکہ نہیں چلا۔ تینوں ایم سی ڈی کے272 میں سے 270 وارڈوں میں ہوئے چناؤ کیلئے کھڑے ہوئے 2516 امیدواروں میں سے1803 کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ ان میں کانگریس 92، عام آدمی پارٹی کے38 اور حیرانی کی بات ہے کہ بھاجپا کے5 امیدواروں کی بھی ضمانت ضبط ہوگئی۔ یہ امیدوار ضمانت بچانے کے لئے ضروری کل ڈالے گئے ووٹوں کا 16.33 فیصدی حصہ نہیں لے پائے۔ دہلی الیکشن کمیشن نے بتایا کہ اس چناؤ میں آزاد امیدواروں کے علاوہ18 مختلف پارٹیوں کے امیدوار چناوی میدان میں اترتے تھے۔ ان میں سے1139 امیدوار ضمانت نہیں بچا پائے۔ میونسپل کارپوریشن چناؤ میں بی جے پی نے امید کے مطابق کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس چناؤ میں بی جے پی کے مسلم امیدوار جنتا کو راس نہیں آئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس سال میونسپل چناؤ میں پانچ مسلم امیدوار اتارے تھے لیکن چناؤ میں ایک بھی امیدوار بھاجپا کے لئے جیت نہیں دلا سکا۔ غور طلب ہے کہ حال ہی میں اترپردیش میں ہوئے چناؤ میں بھاجپا نے ایک بھی مسلم امیدوار نہیں اتارا تھا۔بھاجپا کی اس نیتی کے چلتے بھاجپا پر الزام لگا تھا۔ اترپردیش چناؤ میں لگے الزاموں کو دھونے کیلئے بھاجپا نے مسلم کارپوریشن چناؤ میں پانچ امیدوار اتارے پر ایک بھی امیدوار جیت درج نہیں کرسکا۔ بھاجپا کی جیت کی ایک بڑی وجہ رہی موجودہ کونسلروں کو ٹکٹ نہ دینے کا فارمولہ۔ پچھلے 10 سالوں کی اینٹی ان کمبینسی فیکٹر کو کاٹنے کے لئے یہ فارمولہ کامیاب رہا۔ بھاجپا ہی نہیں بلکہ کانگریس نے بھی یہی حکمت عملی اپنائی۔ دراصل سیاسی پارٹیوں کی طرح ہی ووٹروں نے بھی پرانے چہروں پر زیادہ وشواس نہیں کیا۔ چناؤ میں قریب 45 موجودہ کونسلروں اور 30 سابق کونسلروں نے قسمت آزمائی تھی لیکن 17 موجودہ کونسلر ہی چناؤ جیت سکے۔ اس طرح تینوں میونسپل کارپوریشنوں کے سدن میں 270 وارڈوں میں 245 نئے کونسلر پہنچیں گے۔ مزیدار سچائی یہ بھی ہے کہ بھاجپا اور کانگریس سے بغاوت کر ایسٹ دہلی میں آزادامیدوار کے طور پر چناؤ لڑنے والا کوئی بھی امیدوار نہیں جیت پایا ہے۔ عوام نے باغیوں کو پوری طرح سے نکاردیا۔ پٹ پڑ گنج سیٹ سے بھاجپا کی کونسلر رہی سندھیا ورما نے پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے پر بغاوت کر بطور آزاد امیدوارچناؤ لڑا تھا نتیجتاً انہیں ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسی طرح نیو اشوک نگر سیٹ پر بھاجپا کی باغی وکی سنگھ نے بھی بغاوت کرچناؤ لڑا اور 5223 ووٹ لیکر دوسرے مقام پر رہیں۔ اسی طرح کانگریس سے باغی ونود چودھری نے آئی پی ایکسٹینشن سے کانگریس کا ٹکٹ مانگا تھا، ٹکٹ نہ ملنے پر وہ آزاد امیدوار کے طور پر چناؤ لڑے، انہیں 2000 سے کم ووٹ ملے۔ اسی طرح پانڈو نگر سے کانگریس سے ٹکٹ مانگ رہی ساوتری شرما بھی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد چناؤ لڑیں اور ہار گئیں۔ میونسپل کارپوریشن چناؤ میں اس کراری ہار کے بعد استعفوں کا دور شروع ہوگیا ہے۔ بدھوار کو پردیش کانگریس ادھیکش اجے ماکن، کانگریس کے پربھاری(دہلی) پی سی چاکو اور عاپ کی دہلی اکائی کے سنیوجک دلیپ پانڈے نے استعفیٰ دے دیا۔ دہلی کے اقتدار میں لگاتار 15 سالوں تک قابض رہنے والی کانگریس پارٹی عام آدمی پارٹی کے خلاف بنے ماحول میں بھی میونسپل چناؤ میں دوسرے پائیدان پر نہیں آسکی۔ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ مانی جارہی ہے کہ پارٹی کے کئی سینئر لیڈروں کو کنارے کر پردیش کانگریس ادھیکش اجے ماکن نے اپنی سطح پر اہم فیصلے لئے۔ چناؤ نتیجے آنے کے بعد کئی کانگریسی لیڈروں نے اپنے رد عمل میں کہا کہ کانگریس میں ون مین شو نے لٹیا ڈبائی۔ میونسپل کارپوریشن کے لئے ٹکٹ بٹوارے کے بعد سے ہی کانگریس میں پھوٹ ابھر کر سامنے آگئی تھی۔ اروند سنگھ لولی، برکھا شکلا سنگھ جیسے کئی پرانے کانگریسی لیڈر بھاجپا میں شامل ہوگئے۔ اب کانگریس کے سامنے پارٹی کو بچانے کی چنوتی کھڑی ہوتی دکھ رہی ہے۔ دوسری جانب کئی امیدوار ایسے بھی ہیں جو تیسری چوتھی بار بھی جیتنے میں کامیاب رہے۔ ان لوگوں کا کام جنتا سے سیدھا رابطہ انہیں جتانے کی بڑی وجہ رہا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!