آخر کب تک ہمارے بہادر جوان شہید ہوتے رہیں گے

بستر کی خونی زمین پر ایک کے بعد ایک بار پھرگھناؤنی لیکن اس مرتبہ یہ حرکت نکسلیوں نے ان خونین سوالوں کو پھرسے زندہ کردیا ہے جوعام طور پر ان حملوں سے لگاتار سلگ رہے ہیں۔ اس بار چھتیس گڑھ کے گنجان نکسلی علاقے سکما میں پیر کو دوپہر پولیس و نکسلیوں کے درمیان ہوئی مڈ بھیڑ میں سی آر پی ایف کے 26 جوان شہید ہوگئے اور 6 جوان زخمی ہوئے۔ دو مہینے میں یہ دوسری بار حملہ ہوا ہے۔ نکسلی شہید جوانوں کے ہتھیاربھی لوٹ لے گئے۔ حملہ کے بعد سے 8 جوان لا پتہ ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں نکسلی تشدد کے 5960 واقعات ہوئے ہیں ان میں 1221 شہری ، 455 سکیورٹی ملازم اور 581 نکسلی مارے گئے۔ آر ٹی آئی کے تحت وزارت داخلہ سے ملی معلومات کے مطابق سال 2012ء سے 28 اکتوبر 2017ء کے درمیان نکسلی تشدد کے چلتے دیش میں 91 ٹیلی فون ایکسچینج اور ٹاور کو نشانہ بنایا گیا۔ 123 اسکول بھی نکسلیوں کے نشانے پر رہے۔ سال 2017ء میں 28 فروری تک اعدادو شمار کے مطابق 181 واقعات ہوئے ان میں 32 شہری مارے گئے تو 14 سکیورٹی جوان شہید ہوئے، 35 نکسلی مارے گئے۔ نکسلی جہاں بار بار خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ساؤتھ بستر کا یہ علاقہ دہشت گردی کا گڑھ ہے۔ قریب 900 سے 1000 مربع کلو میٹر گھنا جنگل ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر جگرگڑا ہے۔اسی جگر گڑا کو تین طرف سے گھیرنے کے لئے تین الگ الگ سڑکیں بنائی جارہی ہیں۔ پہلی وورناپال سے جگرگڑا تک 60 کلو میٹر کی سڑک ہے جس پر سب سے زیادہ واقعات ہو رہے ہیں۔ پیر کو بھی اسی پر نکسلی واردات ہوئی۔وورنا پال سے داتے واڑا میں جو دوسری سڑک بن رہی ہے یہ سب سے بڑی چنوتی ہے۔ 17 سال تک نکسلیوں کے قبضے میں رہی۔ سڑک بنانے کے لئے وورناپال میں سی آر پی ایف کا کیمپ لگادیا گیا ہے۔ اسی کیمپ کے جوان روڈ اوپننگ کے لئے نکلے تھے۔ روڈ اوپننگ سے مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی وی آئی پی کے قافلے میں سڑک خالی کرائی جارہی ہو، یہاں روڈ اوپننگ کا مطب ہے بلا رکاوٹ کام چلتا رہے اور نکسلی کوئی دخل نہ ڈال سکیں۔بارودی سرنگ نہ بچھا سکیں۔ یہ کام کافی عرصے سے جوان کررہے تھے۔ عورتوں اور چرواہوں کے ذریعے نکسلیوں نے کئی بار ٹہو لی تھی پھر جوانوں کو گھیر کر حملہ بول دیا۔ ٹھیک اسی طرح تاڑمیٹلا میں کھانا کھاتے وقت 76 جوانوں کو چھلنی کردیا گیا تھا۔ پیر کو بھی کھانا کھانے کے بعد تھوڑا آرام کررہے جوانوں کو سنبھلنے کا موقعہ نہیں دیا اور نکسلی گوریلاوار میں اسی طرح حملہ کرتے ہیں۔یہ حملہ یقینی طور سے قابل مذمت ہے اور بزدلانہ حملہ ہے لیکن اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟سی آرپی ایف کی تیاری کا یہ حال ہے کہ فورس کا ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ قریب دو مہینے سے خالی پڑا ہوا ہے۔ مرکزی سرکار نے اب تک باقاعدہ طور پر نئے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری نہیں کی ہے۔ اس درمیان دیش کی سب سے بڑی پیراملٹری فورس اس دوران دو بڑے حملوں میں اپنے38 جوانوں کو کھو چکی ہے۔ نکسلیوں کے گوریلا حملہ کا سامنا کررہے سی آر پی ایف جوان بلٹ پروف ہیلمٹ ،جیکٹ اور ایم پی وی گاڑی جیسی سہولیات کی کمی سے لڑرہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں نکسلی حملوں میں شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی یہ بھی بڑی وجہ ہے کئی بار گھات لگاکر یا آئی ای ڈی سے حملہ کی پختہ اطلاع ہونے کے باوجود جوان شکار بن جاتے ہیں۔ ایسا سی آر پی ایف جوانوں کو مینی ٹرک، جیپ یا بائیک سے متاثرہ علاقوں میں بھیجنے کے سبب ہوتا ہے۔ 1.25 لاکھ بلٹ پروف ہیلمٹ کی ضرورت ہے جو 1800 بلٹ پروف سے ہی کام چلانے پر مجبور ہیں۔ 38000 ہیلمٹ پہلے منظور بلٹ پروف جیکٹ ابھی نہیں مل پائی۔ بار بار اپنے منصوبوں میں کامیاب رہتے نکسلیوں کی وارداتوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے انٹیلی جنس اکھٹی کرنا اور سرکار کے خفیہ سسٹم کا فیل ہونا۔ بستر کے آئی جی وویک آنندسنہا نے کہا کہ حملہ میں بڑی تعداد میں مہلا نکسلی بھی شامل تھیں۔ ان کے پاس پہلی بار انڈر بیٹل گرینیڈ لانچر جیسے خطرناک ہتھیار بھی تھے جن کی وجہ سے نکسلیوں نے وہاں جاکر تباہی مچائی۔ حملہ میں زخمی ایک جوان نے کہا کہ نکسلیوں کا حملہ سیدھا نہیں تھا بلکہ انہوں نے اس بار بھی دیہاتیوں کو اپنی ڈھال بنایا۔ انہی کے ذریعے سے ٹہو لیکر کارروائی پر اتنی بڑی واردات کو انجام دیا۔ ہسپتال میں بھرتی زخمی جوان نے بتایا گشتی ٹیم پرحملہ کرنے والے نکسلیوں کی تعداد 300 سے400 کے قریب تھی۔ ایک دوسرے جوان نے بتایا کہ اس نے مہلا پولیس نکسلیوں کو دیکھا تھا جنہوں نے کالے کپڑے پہن رکھے تھے اور ہتھیاروں سے لیس تھیں۔ جوانوں نے مزید بتایا کہ نکسلیوں نے حملہ کی کمان تین سطح پر بنائی ہوئی تھی۔ تیسرے نمبر پر بھی سادے بھیس میں مہلا نکسلی تھیں۔ یہ حملہ کے بعد شہید جوانوں کے پرس ،موبائل اور ہتھیار لوٹ لے گئیں۔ اپنے مرے کامریڈوں کی لاشیں بھی اٹھا کر لے گئے۔ خفیہ پولیس کی مانیں تو پچھلے سال نکسلیوں نے ملٹری کمان کی دوبارہ تشکیل کی تھی۔ ان میں 2000 سے زیادہ مہلا نکسلیوں کو بھرتی کیا گیا تھا۔ حملہ کے لئے ذمہ دار آخر کون ہے؟ پچھلے 14 برسوں سے ریاست میں بھاجپا کی سرکار ہے اور تین برسوں کے قریب مرکز میں مودی حکومت ہے۔ دونوں ہی ماؤوادیوں اور نکسلیوں کی بنیاد کو تباہ کرنے کے وعدے اور دعوے کرتے تھکتے نہیں۔ نوٹ بندی کے بعد کہا گیا تھا کہ نکسلیوں کو کالے دھن کی سپلائی کی گئی اب نکسلیوں کی خیر نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ کے ان علاقوں سے کبھی نکسلیوں کے نام پر، کبھی بے سہارا اور بے قصور آدی باسیوں اور انسانی حقوق ورکروں کے پولیس اور نیم فوجی فورس کی زیادتیوں کی خبریں آتی ہیں تو کبھی ان کو دبانے میں لگے ماؤوادیوں کو گھات لگا کر کئے گئے حملوں میں پولیس اور نیم فوجی فورس کے جوانوں کے مارے جانے کی خبریں چلتی رہتی ہیں۔ ماضی گزشتہ میں ماؤ وادی حکمت عملی کی مخالفت کرنے والے کانگریس کے کچھ بڑے نیتاؤں کو بھی ماؤ وادی تشدد کا شکار بننا پڑا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے یا کسی طرح کا درپردہ معاہدہ حکمراں پارٹی کے کسی بڑے نیتا یا سرمایہ دار کو ماؤ وادیوں نے ابھی تک نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ہم ہر طرح کے تشدد کے خلاف ہیں چاہے وہ پولیس یا سکیورٹی فورس کی بندوقیں ہوں ،چاہے بندوق کے زور پر اقتدار ہتیانے کا سپنا دیکھ رہے ماؤ وادیوں کی بندوقوں سے نکلنے والی گولیاں ہوں۔ گولی اور بندوق مسئلہ کا پائیدار حل نہیں ہوسکتا۔ سرکار کو ٹھوس نیتی پر غور کرنا ہوگا اور نئے سرے سے حکمت عملی بنانی ہوگی۔ ابھی تک کی حکمت عملی تو فیل رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟