گؤ ہتیا تو ٹھیک پر سڑکوں پر لاوارث گؤوں کا رکھ والا کون
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی دیش میں گؤ ہتیا پر پابندی لگانے کے لئے ایک قانون بنے۔ آرایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت نے بھی مطالبہ کیا ہے لیکن گؤ ہتیا کا اشو الگ ہے لیکن دیش بھر میں لاوارث گؤوں کی حالت پر بھی بحث ہونی چاہئے۔ پچھلے کچھ عرصے سے گائے کو لیکر پورے دیش میں تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے پھر چاہے راجستھان ہو، مدھیہ پردیش یا مہاراشٹر ہو وہاں کی بات تو چھوڑیئے پہلے دہلی میں گؤوں کا کیا حال ہے اس پر تو نظر ڈالیں۔ ایم سی ڈی سے ملی اطلاعات کے مطابق دسمبر 2016ء میں ڈابر ہرے کرشن گؤسدن میں قریب 192 گائے کی موت ہوئی ،یہاں ہر روز اوسطاً 6 سے زیادہ ۔ گوپال گؤ سدن میں تقریباً4 ہزار گائے رکھنے کا انتظام ہے یہاں بھی 172 گائے کی موت ہوئی تھی۔ دہلی کی سب سے بڑی شری کرشن گؤ شالہ میں ساڑھے سات ہزار گائے ہیں یہاں بھی 295 گائے کی موت ہوچکی ہے یعنی ہرروز 8 گائے دم توڑتی ہیں۔ 1994ء میں دہلی میں بی جے پی کی سرکار تھی مدن لال کھرانہ وزیر اعلی ہوا کرتے تھے۔ اسی وقت سے گؤ شالہ کے نام پر زمینی الاٹ ہوئی تھیں جو 1 ر وپیہ فی ایکڑ کے حساب سے دی گئیں اسی وقت لمبی چوڑی زمینیں لی لی گئیں۔ تب سے اب تک اگر گؤوں کی دیکھ ریکھ کی جاتی تو ممکن ہے کہ یہ گؤ شالائیں آج صحت مند گؤوں کا بڑا مرکز ہوتیں لیکن آج تو یہ گؤ شالائیں گؤوں کے لئے نرک بن چکی ہیں۔ ان کے رکھ رکھاؤ کے لئے دہلی سرکار گؤشالاؤں کو یومیہ فی گائے 20 روپیہ گرانٹ رقم دیتی ہے۔ ان میں کھانے کی گرانٹ بھی شامل ہے۔ وہیں ایم سی ڈی کی طرف سے بھی ایک گائے کے کھانے پینے کے لئے 20 روپیہ یومیہ مدد دی جاتی ہے یہاں گؤ شالہ کے پاس یومیہ فی گائے40 روپے آتے ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں۔ اس میں دودھ کی قیمت بھی جڑ جائے تب بھی ان کے کھانے پینے کا خرچ نہیں نکل پاتا۔ بتایا جاتا ہے ایک گائے کو یومیہ 15 سے20 کلو تک ہرا چارہ، 5-7 کلو تک بھوسہ، دو سے ڈھائی کلو تک دانا و چوکر دیا جاتا ہے جس پر 250 روپے خرچ آتا ہے۔ دہلی میں گؤوں کی حفاظت اور سڑکوں پر گھومنے والے آوارہ جانوروں کو لیکر سرکار نے 5 شیلٹرس ہوم کے ساتھ معاہدہ کیا ہے ان میں گائے کے علاوہ بیل ، بھینس، بچھڑا وغیرہ کو بھی رکھا جاتا ہے۔ شیلٹروں کا انتظام این جی او کے پاس ہے لیکن سرکار انہیں باقاعدہ رقم فراہم کرتی ہے۔ ایم سی ڈی کی ٹیم میں شامل ایک ملازم نے بتایا ہمارا کام صرف گائے پکڑ کر پاس کی گؤ شالہ تک چھوڑنا ہوتا ہے۔ گؤ شالہ کی حالت کیا ہے یہ جا کر دیکھ سکتا ہے۔ وہاں گائے بیمار پڑی ہے، کہیں زخمی پڑی ہے تو کئی بار گؤ شالہ کنٹرولر باہری لوگوں کو گھسنے نہیں دیتے۔ ایم سی ڈی کے ملازمین کا جانوروں کے تئیں رویہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ گؤوں کو ٹرکوں سے اتارنے چڑھانے کے دوران کافی لاپروائی برتی جاتی ہے جس سے جانور زخمی ہوجاتے ہیں اور جتنا بھی دودھ نکلتا ہے اس کا زیادہ حصہ دواؤں میں استعمال ہوجاتا ہے باقی ملازم ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ 20 فیصدی گائے ہی جو صرف2 فیصدی دودھ دیتی ہیں۔ گؤ ہتیا پر پابندی کی مانگ کرنے والوں سے ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ان سڑکوں پر آوارہ گھومنے والی گؤوں جو پلاسٹک بیگ کھا کر پیٹ بھرتی ہیں ان کی دیکھ بھال کون کرے۔ گائے ہر دیش واسی کے لئے پوجنیہ ہے لیکن شاید ہی کسی کو سڑکوں پر گھومتی لاوارث گؤں کی چنتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں